چودھری شجاعت حسین ایک زیرک اور دور اندیش سیاست دان ہیں گو ان کا حلقہ انتخاب ان کی کل سیاست کا محور ہے مگر ان کا سیاسی وجود ایک حقیقت رہا ہے، بہت سے گریٹ بھٹو کے مخالف سیاست دانوں کو نوازشریف کی جماعت کے اندر سیاسی طور پر محدود کر دیا گیا۔ سیاست کے میدان میں وہ قابل ذکر رہے لیکن عوامیت اور مقبولیت نصیب نہ ہوئی، جیسے چودھری پرویز الٰہی، چودھری حامد ناصر چٹھہ اور بہت سے رہتے بھی میاں صاحب کے ساتھ تھے اور بُرا بھی انہی کا چاہتے تھے۔ شیخ رشید اور چودھری نثار علی خان حالیہ مثالیں ہیں، چودھری اعتزاز احسن کے پاس بھی اس وقت کوئی حلقہ نہیں، صرف رائے ہی رائے ہے، جاوید ہاشمی بھی اس ناکام سفر میں شامل ہو گئے۔ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ رہے تو مشرف کے، سپیکر رہے تو نواز شریف کے دور میں پنجاب اسمبلی کے۔ وطن عزیز کی سیاست، بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ میں حسد اور منافقت نے اداروں کو بہت نقصان پہنچایا۔ بہرحال چودھری شجاعت حسین کے دو بیانات جو مختلف وقتوں میں دیئے پاکستانی سیاست، ریاست، سماج پر بہت فٹ آتے ہیں، ایک ’رشوت کی کوئی رسید نہیں ہوتی‘۔ پارلیمنٹ، جمہوریت کی مضبوطی کیلئے چند بل پاس کرائے، صدر زرداری اور نوازشریف کا دور اقتدار تھا۔ بل کی منظوری سے خیال تھا کہ اب سیاست دانوں کو سپیس مل گئی مگر چودھری شجاعت حسین نے کہا ’ایک جیپ اور ایک ٹرک کی مار ہے‘ پھر کیا ہوا، ہائبرڈ نظام آ گیا۔پاکستان میں انتخابات اب ایک ٹرک اور جیپ نہیں ایک فیک نیوز، سوشل میڈیا پر ٹرینڈ یا عدالت کے نامکمل آرڈر کی افواہ کی مار ہے۔ 22 سالہ بندوبست کر کے مقبول نوازشریف کے ”ایک کھلنڈرا“ عمران احمد خان نیازی مسلط کیا گیا۔ اس نظام کے کرشمے ایسے رہے کہ عمران نیازی کہا کرتے تھے کہ ایجنسیوں کو ریکارڈنگ کرنی چاہئے، میں اس کے حق میں ہوں جبکہ نواز شریف اور زرداری اس لیے ڈرتے ہیں، گھبراتے ہیں کہ یہ کرپشن کرتے ہیں اور میں کرپشن نہیں کرتا۔ عمران دور میں ملک ناکام ریاست کے دہانے پر پہنچ گیا مگر عمران نیازی کامیاب رہے۔ جھوٹ، بہتان، الزام، دشنام ایسے تحفے دیئے جو ان کے فالورز نے ہاتھوں ہاتھ لیے۔ میری ایک کلاس فیلو رخسانہ ملک بہت اچھی خاتون ہیں۔ نامور وکیل ہیں۔ عمران کا دور تھا تو صدارتی نظام کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ کسٹم کے 100 کے قریب مقدمات میں مجھے نامزد کیا گیا۔ میں مقدمات کے سلسلے میں اسلام آباد جاتا رہا۔ رخسانہ ملک کا بیٹا بہت دین دار اور نیک نوجوان ہے، وہ بھی ان کے ساتھ وکالت کرتا ہے۔ صدارتی نظام کی بات ہوئی تو یوتھیوں کا خیال تھا کہ عمران صدارتی نظام چاہتے ہیں بہرحال رخسانہ ملک نے بڑی سپیڈ سے کہا کہ ہائے مجھے صدارتی نظام بہت پسند ہے۔ میں نے کہا ایوب، یحییٰ، ضیا، مشرف صدارتی نظام تو نہ بھی ہو صدر تھے اور وزرائے اعظم ان کے سیکرٹری کا درجہ بھی نہ رکھتے تھے وہ تو 1973ء کے آئین کے بعد صدر رہے، اسحاق خان بھی شامل ہے یعنی شق نمبر 58/B2 مرحوم کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم کیا اسمبلی ہی صدارتی مرضی کے مرہون منت تھی۔ اس نے کوئی دلیل نہ دی اور صدارتی نظام کی حمایت میں بولنے لگی۔ میں نے کہا کہ نظام آیا تو زرداری بھی صدر آ سکتا ہے۔ کہنے لگیں کہ نہیں نہیں صدارتی نظام ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایکس کی رونق، فیس بک، سوشل میڈیا کا دور ہے اور بے نامی اکاؤنٹ سے بکواس جاری ہے۔ عالمی باکسر مائیک ٹائسن نے کہا تھا ”ٹویٹر پر گالی دینے والے کو بندہ مکا بھی نہیں مار سکتا“ یعنی ہیوی ویٹ چمپئن بے بس ہے، حکمران بے بس ہیں، سپہ سالار بے بس ہیں، ایک ایسی نسل تیار ہو گئی جس کو بات کچھ کریں جواب کچھ یا جواب آنے پر اظہار کچھ ہے۔ اس پر مجھے مولانا جلال الدین رومی کی ایک حکایت یاد آ گئی جو عمران خان کی پیدا کردہ سیاسی سوچ کے نتیجے میں لوگوں کو بہرہ کر گئی۔ نظر کچھ آتا ہے سمجھ کچھ آتی ہے۔
ایک بہرے کو معلوم ہوا کہ اس کا پڑوسی بیمار ہے۔ بہرے نے اپنے آپ سے کہا کہ مجھے بیمار پرسی کے لیے جانا چاہیے لیکن میں اُس کی آواز تو سُن نہیں سکوں گا ہاں اُس کے ہونٹوں کی جنبش سے قیاس کرلوں گا کہ وہ کیا کہتا ہے۔ جب میں پوچھوں گا، دوست کیسے ہو تو وہ کہے گا اچھا ہوں۔ میں کہوں گا شکر ہے۔ میں پوچھوں گا کیا کھایا ہے؟ وہ کہے گا شوربہ میں کہوں گا مناسب ہے۔ میں پوچھوں گا معالج کون ہے؟ تو وہ کسی کا بتائے گا۔ میں کہوں گا کہ وہ آتا ہے تو تیرا کام اچھا ہو جائے گا وہ جہاں جاتا ہے حاجت روا بن جاتا ہے۔ یہ سوچ کر وہ بیمار کے پاس گیا، اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا کیسے ہو؟ وہ تکلیف میں تھا۔ بولا مر رہا ہوں، بہرے نے اٹکل لگائی کہ شکر ہے۔ لیکن وہ تو ٹیڑھی لگی۔ پھر پوچھا کیا کھایا ہے۔ وہ بولا زہر۔ بولا، بہت اچھی دوا ہے۔ مریض اور تنگ ہو گیا۔ معالج کا پوچھا تو یہ بولا، ملک الموت۔ وہ بولا، تمہیں مبارک ہو وہ بہت خوش قدم ہے میں ابھی اس کے پاس سے تیرے پاس آیا ہوں اور تیری خبر گیری کرنے کو کہا ہے۔ بہرا خوش خوش اپنے گھر لوٹا۔ بولا شکر ہے میں نے اُس کا حق ادا کر دیا۔ بہرے پن کی وجہ سے اس کا گمان الٹا تھا کہ خالص نقصان کو نفع سمجھا وہ خوش تھا کہ میں نے پڑوسی کی عیادت کر دی۔ مریض کہہ رہا تھا کہ یہ تو میری جان کا دشمن تھا وہ غصہ سے بھرا ہوا تھا۔ چونکہ اس میں صبر کا مادہ نہ تھا تو وہ چاہ رہا تھا کہ جو کچھ اس نے کہا ہے میں اسی پر پلٹ دوں بیمار پُرسی دل کو آرام پہنچانے کے لیے ہوتی ہے۔ یہ تو اس نے عداوت کی ہے۔ بہت سے انسان ہیں جو عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ثواب کی امید رکھتے ہیں لیکن وہ چھپی ہوئی گناہگاری ہوتی ہے۔ بہت سے وہ پانی جن کو تو صاف سمجھتا ہے مکدر ہوتے ہیں۔ اُس بہرے کی طرح جس نے یقین کیا کہ اُس نے نیکی کی ہے حالانکہ وہ برائی تھی۔ اُس نے اپنی دانست میں نیکی سے مریض کے دل میں آگ بھڑکا دی۔ اے لوگو اس آگ سے بچو جو تم نے خود بھڑکائی ہے۔
ویسے تو عموماً سیاسی سمجھداروں اور لوگوں کی عوام کے دکھوں کے سامنے حالت ان بہروں جیسی ہی ہے لیکن ہمارے حکمران طبقے تو حد سے گزر گئے۔ پی ٹی آئی کی قیادت بھی ایاک نعبدو وایاک نستعین تک رہتی ہے آگے اھدنا الصراط…… تک نہیں جاتی۔ مدد ہی چاہتی ہے ہدایت نہیں اور نہ ہی گمراہی سے پناہ۔ جبکہ فالورز تو الامان الحفیظ
تبصرے بند ہیں.