ایک ملاقات گورنر پنجاب سے!

46

گورنر کسی بھی صوبے میں ایک اہم آئینی عہدہ ہے۔ گورنر،صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اگرچہ گورنر کے پاس انتظامی اختیارات نہیں ہوتے، تاہم کچھ آئینی تقاضے ہیں، جو گورنر کو نبھانا پڑتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں اکثر و بیشتر ہلچل بپا رہتی ہے، اس تناظر میں گورنر کے عہدے کی اہمیت نہایت زیادہ ہے۔ گورنر صوبے کی تمام جامعات کا چانسلر ہوتا ہے، سو تعلیمی لحاظ سے بھی گورنر کا عہدہ خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ صوبہ پنجاب میں انجینئر بلیغ الرحمن اس اہم منصب پر فائز ہیں۔ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انجینئرنگ کی تعلیم آپ نے امریکہ سے حاصل کی۔ آپ کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور سے ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے آپ کے آباو اجداد سیاست میں متحرک ہیں۔ آپ خود دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو ئے۔ مسلم لیگ(ن) کے گزشتہ دور حکومت میں آپ وفاقی وزیر تعلیم رہے۔ انجینئر بلیغ الرحمن کی پنجاب میں بطور گورنر تعیناتی ایک ایسے وقت میں ہوئی، جب پنجاب کی سیاست میں ایک بھونچال برپا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی تعیناتی کے حوالے سے صوبے میں ایک آئینی اور سیاسی بحران پیدا ہو گیا تھا۔ بلیغ الرحمن کی تعیناتی کے بعد سیاسی ہلچل میں ٹھہراؤ آ گیا۔ ماضی پر نگاہ ڈالیں تو ایسے ادوار گزرے ہیں، جب گورنر ہاؤس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ گورنر ہاؤس میں سیاسی جلسے ہوتے رہے۔ یہ اہم جگہ سیاسی جوڑ توڑ اور سازشوں کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ ایسے گورنر بھی ہم نے دیکھے ہیں جو بڑھ چڑھ کر سیاسی بیان بازی میں حصہ لیتے اور سیاست کی گرما گرمی میں حصہ ڈالتے رہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ماضی کی مثالوں کے قطعی برعکس، گورنر بلیغ الرحمن نے اپنا دامن سیاست سے بچا کر رکھا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ گورنر بننے کے بعد وہ سیاست سے بے نیاز ہو گئے ہیں یا بالکل غیر جانبدارہیں۔ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور انہیں پارٹی قائدین کے کافی قریب سمجھا جاتا ہے۔ گورنر ہاؤس میں سیاسی ملاقاتوں کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ تاہم مثبت بات ہے کہ ماضی کی مثالوں کے قطعی برعکس، انہوں نے گورنر ہاؤس کو سیا ست کا اکھاڑہ نہیں بننے دیا۔ گور نر بننے کے بعد انہوں نے شعوری طور پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو نہایت محدود کر رکھا ہے۔

چند دن پہلے مجھے گورنر پنجاب سے ملاقات کا موقع ملا۔اس ملاقات میں مختلف موضوعات زیر بحث آئے۔ذاتی طور پر مجھے تعلیم، سیاست اور میڈیا سے متعلق گفتگو میں دلچسپی رہتی ہے۔ یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ سیاست سے زیادہ گورنر صاحب کو تعلیمی معاملات میں دلچسپی ہے۔ملاقات میں سیاست اور میڈیا سے متعلق کچھ موضوعات پر بات ہوئی۔ اپنے قائد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کا ذکر بھی انہوں نے کیا۔ لیکن ان کی دلچسپی کا اصل محور تعلیمی معاملات تھے۔ بتانے لگے کہ بطور گورنر ان کا زیادہ تر وقت تعلیمی امور کے لئے وقف رہتا ہے۔ کہنے لگے کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ یونیورسٹیوں کے معاملات میں میرے دفتر کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ آئے۔جو بھی خطوط یا فائلیں موصول ہوں، ان کے جوابات وقت پر دئیے جائیں۔ گورنر صاحب نے بتایا کہ جامعات سے کانوکیشن کی دعوت نامے آتے رہتے ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی بھی جامعہ سے معذرت نہ کروں اور ہر کانوکیشن میں حاضری دوں۔ملاقات میں جامعہ پنجاب کے حوالے سے کچھ امور زیر بحث آئے۔ میرے شعبہ فلم اینڈ براڈکاسٹنگ سے متعلق معلومات انہوں نے نہایت دلچسپی سے سنی اور اس شعبہ کی اہمیت پر اظہار خیال کیا۔میں نے ان سے ایک دو گزاشات کیں جو انہوں نے قبول فرما لیں۔

اس ملاقات کے بعد میرے اس تاثر کو تقویت ملی کہ بطور چانسلر وہ اعلیٰ تعلیم کو درپیش مشکلات و مسائل سے آگہی رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ وہ وزیر مملکت برائے تعلیم اور وفاقی وزیر تعلیم کے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بطور وزیر تعلیم وہ کافی متحرک ہوا کرتے تھے۔ نفاذ اردو کے لئے بھی انہوں نے کاوشیں کیں۔ نفاذ اردو سے متعلق ایک کمیٹی کے سربراہ رہے۔ یہ جان کر اچھا لگا کہ وہ جامعات کے امور ترجیحی بنیادوں پر نمٹاتے ہیں۔ تاہم ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جامعات کے کچھ معاملات ان کی خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب کی بہت سی جامعات وائس چانسلروں سے محروم ہیں۔ کسی جامعہ میں وائس چانسلر کا عہدہ خالی ہوتا ہے تو کسی پروفیسر کو اس عہدے کا عارضی چارج دے کر روز مرہ امور نمٹائے جاتے ہیں۔ جامعہ پنجا ب سمیت، پنجاب کی بہت سی جامعات میں یہی صورتحال ہے۔ بسا اوقات تعینات ہونے والے پروفیسر نہایت خوش اسلوبی سے جامعہ کے معاملات چلاتے ہیں۔ تاہم د جز وقتی یا عارضی ہونے کی وجہ سے بیشتر امور پر ان کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔

اگرچہ وائس چانسلروں کی تعیناتی ایک انتظامی معاملہ ہے۔ گورنر بلیغ الرحمن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ تاہم بطور گورنر اور چانسلر وہ اس ضمن میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے وہ وزیر اعلیٰ اور متعلقہ وزیر کو بروقت یہ فیصلہ کرنے کی تجویز دے سکتے ہیں۔ اب تو خیر نگران دور حکومت کی وجہ سے معاملات التواء کا شکار ہیں۔ تاہم نگران سیٹ۔ اپ سے پہلے بھی یہی صورتحال تھی۔تفہیم کا پہلو یہ ہے کہ وائس چانسلر کی تعیناتی کوئی ہنگامی فیصلہ نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ خدانخواستہ کسی کی موت واقع ہوجانے سے کوئی منصب خالی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، مہینوں بلکہ سالوں پہلے معلوم ہوتا ہے کہ فلاح فلاح تاریخ پر عہدہ خالی ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود اگر مہینوں تلک جامعات وائس چانسلروں سے محروم رہیں تو اسے تعلیم سے عدم دلچسپی اور بے نیازی نہ کہیں تو اور کیا نام دیں؟۔ گورنر بلیغ الرحمن اس ضمن میں کوئی کردار ادا کر سکیں تو یہ بہت عمدہ کام ہو گا۔ چند ماہ پہلے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد بتا رہے تھے کہ انہوں نے صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کر کے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ وائس چانسلروں کی تعیناتی بروقت کرنے کی کوئی راہ نکالیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہر صوبے میں جامعات کی یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ جب ہم جامعات کے لئے فنڈز کی کمی کا نوحہ پڑھتے ہیں تو حکومتی عہدیدار ہمیں بتاتے ہیں کہ قومی معیشت کی حالت نازک ہے۔ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ کم و بیش ہر شعبے کے لئے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے وائس چانسلروں کی برقت تعیناتی میں کون سے فنڈ خرچ ہوتے ہیں جو اس معاملے میں تاخیر کی جاتی ہے۔ دراصل یہ ترجیحات کا معاملہ ہے۔ گورنر پنجاب بطور چانسلر اگر جامعات کے وائس چانسلروں کی بروقت تعیناتی کے حوالے سے کوئی طریقہ کار وضع کرسکیں تو یہ شعبہ اعلیٰ تعلیم پر ان کا احسان ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.