اقتدار کے ایوانوں سے، اعلیٰ عدلیہ کے بند دروازوں کے پیچھے سے اور بااثر لوگوں کے ڈرائنگ رومز اور بیڈرومز سے لیک ہونے والی ویڈیوز اور آڈیوز نے پاکستان کے سماجی، صحافتی، عدالتی اور سیاسی حلقوں میں کافی عرصہ سے تھرتھلی مچا رکھی ہے۔
اگرچہ ان لیک ہونے والی ویڈیوز اور آڈیوز کی اکثریت کو متعلقہ لوگ جھٹلا نہیں سکے لیکن پھر بھی پوری ڈھٹائی سے یہ دلیل ضرور دیتے ہیں کہ اس طرح کسی کی پرائیویٹ زندگی میں مداخلت کرنا کسی بھی طور جائز نہیں ہے۔ دوسری طرف سے یہ دلیل آتی ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ویڈیوز اور آڈیوز کس طرح ریکارڈ کی گئیں دیکھنا یہ چاہیے کہ لیک ہونے والے مواد کی قانونی اور اخلاقی اہمیت کیا ہے۔
سابق کرکٹر، سیاستدان اور ایوان وزیر اعظم سے ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں نکالے جانے والے عمران خان نے جس قسم کی زندگی گزاری ہے اور مالی معاملات میں ان کا جو طرز عمل رہا ہے اس کے نتیجہ میں یہ ویڈیواور آڈیو لیکس ان کو ہی سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہیں۔
خان صاحب جو پہلے سے قانونی مسائل کی وجہ سے کافی عرصہ سے جیل میں بند ہیں اب ان ویڈیوز اور آڈیوزلیکس (بالخصوص اخلاقی قسم کی لیکس) کی وجہ سے انہیں اور ان کے ارد گرد کے لوگوں کو شدید قسم کی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان صاحب سے وزارت عظمیٰ چھن گئی،وہ بری طرح قانون کے شکنجے میں آگئے حتی ٰ کہ انہیں اپنی ہی بنائی ہوئی سیاسی پارٹی کی چیئرمین شپ سے بھی محروم ہونا پڑا۔ لیکن شائد کچھ قابل وکیل اور کچھ شاطر ترجمان انہیں کبھی نا کبھی اس صورتحال سے نکال لیں لیکن عوام کی نظروں سے گر جانے کا حل شائد کسی کے پاس بھی نہ ہو۔
ہمارے ملک میں بالخصوص سیاستدانوں میں یہ طرز عمل عجیب ہے کہ اگر جھوٹ بولتے، چوری کرتے، فراڈ کرتے یاکسی بھی قسم کی نوسربازی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو شرمندہ ہونے یامعذرت خواہ ہونے کے بجائے کج بحثی میں پڑ جاتے ہیں یا جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ماضی میں ان کا مخالف سیاستدان بھی تو چونکہ یہی کچھ کرتا رہا ہے لہٰذا اب وہ یہ حرکتیں کرنے میں حق بجانب ہیں۔ وہ اس قسم کے دلائل دیتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اپنی سیاسی مہم کے دوران وہ کس اخلاق کی بلندی، سچائی اور ایمانداری کے علم بردار رہے ہیں۔ ان لوگوں سے کوئی یہ پوچھنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا کہ بھائی صاحب یہ کون سے قانون میں لکھا ہے کہ کسی شخص کی غلط کاری آپ کو وہی غلط کام کرنے کی اجازت دیتی ہے یا آپ ماضی میں کس قسم کے اخلاق کا درس دیتے رہے ہیں وہ اب کہاں ہرن ہو گیا ہے۔ یا اگر یوں کہا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا کہ دو غلط مل کر ایک صحیح تو نہیں بنا سکتے لیکن ان کرپٹ لوگوں کے لیے بحث کرنے کا مواد ضرور فراہم کر دیتے ہیں۔
اس موقع پرامیتابھ بچن کی ایک پرانی فلم یاد آ رہی ہے جس میں وہ ایک سیاسی پارٹی کا متحرک کارکن ہوتا ہے۔ اپنے لیڈر کے حق میں مظاہرے کے دوران ٹرین روکنے کی کوشش کے جرم میں اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ گرفتاری کے بعد کوئی سیاسی پارٹی یا راہنما نہ تو اس کے کیس کی پیروی کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے بیوی بچوں کی کوئی خبر لیتے ہیں۔ حالات سے تنگ آ کر اس کی بیوی اس سیاسی راہنما کے گھر پہنچتی ہے جس کے حق میں ہلڑ بازی کرنے کے جرم میں اس کا شوہر جیل کی ہوا کھا رہا ہوتا ہے تو بدمعاش سیاستدان اس کی مدد کرنے کے بجائے اس کا ریپ کر دیتا ہے۔ نتیجہ میں وہ خاتون خودکشی کر لیتی ہے۔ جب امیتابھ صاحب جیل سے رہا ہو کر آتے ہیں اور انہیں حقیقت کا علم ہوتا ہے تو وہ جھگڑا کرنے سیاسی لیڈر صاحب کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ سیاسی لیڈر اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے اس دوبارہ لمبی مدت کے لیے جیل بھجوا دیتا ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار تھا وہ دراصل کس قدر استحصالی تھا۔فلم تو کافی پرانی ہے لیکن کہانی آج بھی نئی لگتی ہے۔ کارکن آج بھی استحصال کا شکار ہیں اور غریب آدمی کی کسی بھی فورم پر کوئی شنوائی نہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ عوام اس قسم کی کہانیوں اور واقعات سے کوئی سبق حاصل کرنے کے بجائے اسی پرانی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں۔
ہمارا سیاسی نظام بھی اس قسم کے بھیڑیوں سے بھرا پڑا ہے لیکن جانے کیوں عوام کو ان کا اصل چہرہ نظر نہیں آتا، یا شائد وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ اگر ان ویڈیوز اور آڈیوز کی وجہ سے کچھ بد عنوان لوگ بے نقاب ہو رہے ہیں تو ایک عام آدمی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ یہ کام قانون اور آئین کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں۔
ان ویڈیوز اور آڈیوز کی قانونی حیثیت جو بھی ہویا چاہے انہیں کوئی کسی سازش کے تحت ہی کیوں نہ استعمال کر رہا ہو لیکن یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ان کی وجہ سے ان چہروں سے نقاب ہٹا ہے جن کو لوگ اندھا دھند اپنا لیڈر مانتے تھے اور ان کی ایک کال پر مرنے مارنے پر اتر آتے تھے۔
تبصرے بند ہیں.