1905ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وائسرائے ہند نے اعلان کر دیا۔ ہندوستان کی واحد سب سے بڑی جماعت کانگریس نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ کانگریس کے کرتا دھرتا کرم چند گاندھی کے وائسرائے سے مذاکرات ہوگئے۔ اس پر کانگریس کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا لیکن نہ تو احتجاجی جلوس نکلے نہ وائسرائے ہاؤس کے باہر دھرنا دیا گیا نہ پتلے اور سڑکوں پر ٹائر جلائے گئے نہ ٹریفک روکی گئی، نہ سرکاری املاک نہ لوگوں کی گاڑیوں وغیرہ سمیت نجی املاک کو تباہ کیا گیا۔ کرم چند گاندھی نے محض ایک اعلان کیا کہ آج سے برطانیہ سے درآمد شدہ اور برطانوی کمپنیوں کے اشتراک سے تیار کردہ اشیاء کا بائیکاٹ، تاہم کانگریس میں اہم مسلمان لیڈر ایم اے جناح نے بوجہ اس کی حمایت نہیں کی۔ وہ ابھی قائد اعظم نہیں بنے تھے۔ اس ترک موالات تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف آٹھ روز میں برطانوی راج نے گھٹنے ٹیک دیئے اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ کیونکہ اس سے برطانیہ کی معیشت، تجارت پر بڑی زد پڑتی تھی۔ مانچسٹر میں میرے مرحوم دوست شاکر حسین نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ برطانیہ میں پچھتر سے اسی فیصد فیکٹریاں، کارخانے، بڑے ہوٹل، ریسٹوران اور تجارتی کاروباری مراکز کے مالک یہودی ہیں اور یہودیوں کی یہ سرشت کہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے، کسے نہیں معلوم ہے۔ کرم چند گاندھی نے برطانیہ کی کمزور رگ پر ہاتھ ڈالی۔ اس کے نتیجے میں برطانوی یہودیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی او اس وقت کے بادشاہ کنگ جارج ہشتم پر دباؤ ڈالا ہوگا۔ اس طرح ایک سیاستدان نے ایک تنکا توڑے یا ہلائے بغیر اپنا بہت بڑا مقصد حاصل کر لیا۔
پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر تمام مسلمان ممالک یہ اعلان کر دیں کہ آج سے ان کی مارکیٹوں میں امریکہ اور اسرائیل کی مصنوعات اس وقت تک فروخت نہیں ہوں گی جب تک اسرائیل اور امریکہ فلسطینیوں کا جائز حق تسلیم کر کے اسے عملی جامہ نہ پہنا دیں، صرف یہ اعلان ہی دنیا بھر کے یہودیوں کے دماغ درست کرنے کیلئے کافی ہے۔ پھر مسلمان جو بائیڈن کی منتیں نہیں کریں گے بلکہ جوبائیڈن ان کے پیر پکڑے گا لیکن عمیق جائزہ لیا جائے تو چوہوں کی جانب سے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے مترادف ہے کیونکہ مسلمان ملکوں کے کسی حکمران میں یہ جرات رندانہ نہیں ہے ایسا دلیرانہ اقدام ان کیلئے ممکن ہی نہیں ہے۔ انہیں خوف دامن گیر ہے امریکہ سپر پاور ہے۔ وہ ان کے ملکوں کو تباہ کر دے گا۔ قدیم تاریخ کو چھوڑیں عصر حاضر کی جدید ترین تاریخ ہے کیا افغان طالبان نے چالیس سال امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ امریکہ نے ”سپر پاور ہے“ افغانستان کا کیا بگاڑ لیا۔
ہماری ماضی کی درخشاں تاریخ ہے۔ خالد بن ولید نے صرف دس ہزار مجاہدین کے ساتھ ہاتھی، گھوڑوں، تیروں، نیزوں سے مسلح ہرقل اعظم کی ایک لاکھ فوج کو شکست نہیں دی تھی۔ کیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے پورے یورپ کی مشترکہ افواج قاہرہ کو عبرت ناک شکست دے کر کنگ رچرڈ کے صلیبی نعرہ کا بھرکس نہیں نکال دیا تھا۔ علامہ اقبالؒ کے بقول مسلمان حکمران اپنی شجاعانہ روایت کو زندہ کریں۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
مگر یہاں کوئی فضائے بدر پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس ایک اعلان، یہودیوں کی مار ہے۔ مصنوعات کا بائیکاٹ۔
بہرحال ایمان کی حرارت رکھنے والے بالکل معدوم نہیں ہوئے۔ کراچی کے ایک علاقے ذوالفقار آباد کے دکاندار نے ایزی سٹی کی جامع مسجد خالد بن ولید کے امام اور خطیب مولانا قاری ابوبکر کو بتایا کہ اس کے پاس یونی لیور سمیت کئی غیر ملکی کمپنیوں کی لاکھوں روپے کی مصنوعات موجود ہیں جو اس نے سٹور میں بند کر دی ہیں۔ اس سے کیا ہوا اس کا اثر ہوا مثلاً کیپری صابن پر پانچ روپے منافع ملتا تھا۔ جو بیس روپے کر دیا گیا۔ اس چھوٹی سی مثال کے اثرات کی روشنی مسلمان ملکوں، تاجر حکمرانوں کو چھوڑیں خود یہ نقصان برداشت کر لیں۔ انشاء اللہ خدا کے ہاں اس سے کئی گنااجر عظیم پائیں گے۔
ایک بڑے دینی عالم والد شیخ الحدیث کی بیٹی کی شادی پر غیر ملکی مشروبات کی جانب توجہ دلائی گئی تو جواب دیا کیا ”فلاح دور میں یہودیوں سے تجارت نہیں ہوئی تھی“ ہوئی تھی مگر کیا تب یہودی مسلمانوں پر بم برسا رہے تھے کیا ان کے گھروں اور شفاخانوں کو تباہ کیا جا رہا تھا۔ کیا فرعون کی سنت پر عمل کرکے مسلمانوں کے بچے اور خواتین کو خون میں نہلایا جا رہا تھا۔ جب عالم دین کی یہ روش ہو تو پھر صرف نوحہ ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
بنگلہ دیش اور چھوٹے افریقی ممالک نے بڑی غیرت کھائی ہے انہیں سلام۔ وہ اسرائیل کے جرائم کو عالمی عدالت جرائم میں لے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ ایمان کی حرارت تو ہے مگر اس سے اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جرائم کی یہ عالمی عدالت پہلے ہی سے یعنی2014 کے بعد کئے گئے اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کر رہا ہے تادم تحریر اس تحقیقات کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دوسرے اسرائیلی جنگی جرائم کو عالمی عدالت میں لے جانے والے ممالک بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ،بولیویا، جبوتی اور کومو روس میں بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ ہی عالمی سطح پر کچھ اہمیت و شناخت رکھنے والے ممالک ہیں۔ دوسرے جرائم کی عالمی عدالت ہو، ملک کے مابین تنازعات کے فیصلے کرنے والی عالمی عدالت انصاف ہو، یا آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی ادارے ہوں، یہ سب حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی امریکہ کی جنبش ابرو پر چلتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری ہے۔ جو قوم خود اپنی حالت نہیں بدلتی اس کی تقدیر نہیں بدلی جاتی۔ اصل مفہوم سے قریب یہی بات مسلمانوں کیلئے راہ نجات ہے۔ تمام اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیلی و یورپی مصنوعات کے بائیکاٹ کے حوالے سے یہ خدشہ کہ پھر وہ امریکہ اور یورپ میں ان ممالک کی درآمدات پر پابندی لگا دیں گے، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ بے بنیاد خدشہ ہے کیونکہ تجارتی ذہنیت رکھنے والے کبھی اتنی بڑی مارکیٹ سے خود کو محروم نہیں کریں گے۔ دوسرے نہ وہ کبھی یہ چاہیں گے کہ مسلمان ممالک ایک دوسرے کی مصنوعات پر انحصار کرنے کی روش پر چل نکلیں۔
تبصرے بند ہیں.