انتخابات 2024 اور (ن) لیگ کی مضبوط پوزیشن

69

جمہوری نظام میں انتخابات عوامی حق رائے دہی کے حصول اور ملک میں سیاسی استحکام کے حوالے سے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں عام انتخابات ہمیشہ متنازع ہی رہے ہیں۔ شکست خوردہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ نتائج کو چیلنج کیا اور متعلقہ حکام پر الزام لگایا کہ انہوں نے جیتنے والی پارٹی کے حق میں دھاندلی کی ہے۔ اب 8 فروری 2024 کو عام الیکشن کی گونج سنائی دے رہی ہے اور سیاسی منظر نامہ مسلم لیگ (ن) کے حق میں دکھائی دے رہا ہے۔ 2018 میں عوام بالخصوص ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کے سہانے خواب دکھا کر ان کے جذ بات کا استحصال کیا گیا اور اقتدار میں آنے کے بعد ریاست مدینہ کا شوشہ چھوڑ کر پاکستانیوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا گیا۔ اس کی آڑ میں مہنگائی کی انتہا کر دی گئی، کرپشن کے نت نئے راستے ڈھونڈے گئے، جو یہ کہتے تھے ”خود کشی کر لوں گا آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا“۔ سب سے پہلے عوام کے گلے میں آئی ایم ایف کے قر ضے کا پھندا ڈال دیا گیا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ماضی کی طرح بڑے بڑے انتخابی اتحادوں کا کوئی امکان نہیں البتہ علاقائی اور مقامی سطح پر حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات موجود ہیں۔ مانا پی پی پی اور پی ایم ایل (این) جو کہ سبکدوش ہونے والی پی ڈی ایم حکومت میں اتحادی تھیں، کی ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے مگر الیکشن کے انعقاد کے اعلان کے بعد سے حسب روایت سیاست دانوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور خدشات کی بھر مار نیک شگون نہیں۔ مسلم لیگ کے مخالف سیاسی دھڑے نے الزام لگایا ہے کہ پی ایم ایل (این) نواز شریف ایک ڈیل کے نتیجے میں ملک میں واپس آئے ہیں۔ مسلط کردہ وزیر اعظم قبول نہیں۔ مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کسی ڈیل کے ضمن میں نہیں بلکہ ان کے تکمیل شدہ فلاحی منصوبوں کی وجہ سے ہو گی جن سے عوام آج بھی فیض یاب ہو رہی ہے۔ فروری کے انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ان کی طرف سے یہ کوئی معقول موقف نہیں ہے۔ کوئی بھی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ کوئی ڈیل ہوئی ہے یا نہیں۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ (ن) لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی نے دیگر سیاسی قیادتوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا اعلان کہ وہ پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے تیار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی حکمت عملی کو واضح کرتی ہے۔ بلا شبہ پنجاب آج بھی مسلم لیگ (ن) کے لیے اقتدار کا گڑھ ہے۔ ن لیگ کی حکومت نے کٹھن چیلنجز کے باوجود کامیابیاں حاصل کیں اور آج ملک بھر میں مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی پراجیکٹس واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جب 2013 میں حکومت سنبھالی تو بہت سے مسائل درپیش تھے، دہشت گردی عروج پر تھی، عوام کو بدترین لوڈشیڈنگ کے عفریت کا سامنا تھا لیکن تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود وہ منصوبے مکمل کیے کئی عشروں سے التوا کا شکار تھے۔ اس دور میں بجلی کی پیداوار پر کام ہوا اور 10 ہزار 400 میگا واٹ بجلی سسٹم میں داخل ہوئی، 5 سال میں وہ کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچائے جو گذشتہ ادوار میں نہ ہوئے، جن میں اسلام آباد ائیرپورٹ جس کا آغاز 7 اپریل 2007 کو مشرف حکومت میں ہوا تھا اس کی تکمیل مئی 2018ء مسلم لیگ (ن) حکومت کے دور میں ہوئی۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ 969MW جس کا آغاز بھی 2002 میں مشرف حکومت میں ہوا تھا اسے بھی 2018 میں مسلم لیگ (ن) حکومت نے مکمل کیا تھا۔ لواری ٹنل چترال 8.75 کلومیٹر جو ستمبر 1975 بھٹو دور میں شروع ہوئی تھی اس کو جولائی 2017 میں مسلم لیگ(ن) حکومت نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ جبکہ ن لیگ کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں کی گئی، دھرنے دیے گئے، پاناما کیس ہوا، حکومت ختم کر دی گئی مگر ترقی کا سفر جاری رکھا اور ایک بار پھر 2024 میں عام انتخابات میں جیت کے بعد یہ تعمیر و ترقی کا رکا ہوا سفر جاری ہو گا اور پاکستانی عوام اس کے ثمرات سے مستفید ہوں گے۔ ان شاء اللہ!۔ سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے دوران سڑکوں کا جال بچھایا، سکول، یونیورسٹیاں، ہسپتال تعمیر کیے، عوام کسی بھی شہر میں چلے جائیں، انہیں پنجاب کے شہر الگ نظر آئیں گے۔ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں پی ٹی آئی کے جھوٹے بیانیے سے کون واقف نہیں ہے، خاص طور پر عمران خان کا نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی کے خلاف پی ایم ایل (این) کو 35 سیٹیں جیتنے میں مدد کرنے کے الزامات سے، جسے وہ طنزیہ انداز میں پنکچر کہتے تھے۔ تاہم جب دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے عدالتی کمیشن نے غور و خوض کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا اور اسے دھاندلی کا کوئی ثبوت نہ ملا تو پی ٹی آئی سر براہ سابق وزیر اعظم عمران خان ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کر چکے ہیں کہ 35 پنکچروں کا بیانیہ صرف سیاسی بات تھی۔ اس کے بارے میں نہ صرف یہ کہ ان کی ساری سیاست جھوٹے بیانیے پر مبنی ہے، آنے والے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے عمر ایوب کا بیان بھی ان کی ساکھ کو ٹھیس پہنچانے کی ایک ایسی ہی چال ہے۔ اب یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی خود 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کی پیداوار تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس نے اپنے حق میں انتخابات میں دھاندلی کے روایتی حربے استعمال کیے۔ این اے 75 کا ضمنی انتخاب پی ٹی آئی کی ناپسندیدہ حرکتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار حکام کو شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے دیانتدارانہ اور سخت کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ نتائج کی ساکھ کو یقینی بنایا جا سکے۔ درحقیقت انتخابات کے انعقاد سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مختلف سیاسی سٹیک ہولڈرز کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے خدشات اور بدگمانیوں کو دور کیا جائے اور تمام جماعتوں کو انتخابات کے اقدامات اور قواعد و ضوابط کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے تاکہ کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے کی شکایت نہ ہو۔ بلاشبہ انتخابات جمہوریت کو مضبوط کرنے اور ریاستی امور چلانے کے لیے نمائندہ حکومتوں کا قیام ناگزیر ہیں۔ ہمیں حکمرانی کے قدیم نظام اور اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کے طریقے کو الوداع کہنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں سیاسی جماعتوں کو تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور اپنی اجتماعی دانش کو قوم کے وسیع تر مفاد میں استعمال کرنا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.