افغان سرزمین استعمال کرنے والے دہشتگردوں نے پاکستان کیخلاف اعلان جنگ کر رکھاہے،  امریکی اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے کے شواہد سامنے آچکے: انوارالحق کاکڑ

119

اسلام آباد: نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ  نے کہا کہ پاکستان میں بے امنی پھیلانے والوں میں غیر قانونی تارکین وطن کا ہاتھ ہے، دہشتگردوں نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے، دہشتگرد افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

نگران وزایر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہا کہ افغانستان کے ہر مشکل قوت میں پاکستان نے اس کا ساتھ دیا ہے۔  پاکستان افغانستان کے تعلاقات مشترکہ مذہب اور  بھائی چارے پر مبنی ہیں۔ پاکستان نے 40 لاکھ افغان شہریوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا، افغانستان میں عبوری حکومت بننے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ غیر قانونی طور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے، 8 لاکھ افغان شہریوں کو عبوری طور پر سٹیزن کارڈ مہیا کیے گئے،پاکستان کے عوام نے افغان مہاجرین کےلیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہیں، اس جذبے پر دشنام تراشی پرپاکستان کے غیور اور بےلوث عوام کے جذبات پر ٹھیس پہنچائی ہے۔

 

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا  کہ بدقسمتی سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد دہشتگردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا،  2 سال میں سرحد پار دہشتگردی کی وجہ سے 2 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے، 64 افغان دہشتگرد پاکستانی سکیورٹی فورسز سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔

 

کاکڑ کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو افغانستان میں موجود پاکستان کو مطلوب دہشتگردوں کی فہرست بھی دی گئی، دہشتگردوں سے متعلق معلومات افغان حکومت کے ساتھ شیئر بھی کی گئیں لیکنافغانستان نے پاکستان مخالف دہشت گردوں کےخلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش تھی ایسے معاملات کو میڈیا پر لائے بغیر افہام و تفہیم سے حل کر لیا جائے لیکن افغان حکومت کے مثبت ردعمل نہ آنے پر معاملات خودٹھیک کرنے کا فیصلہ کیا۔

 

غیر قانونی طور  پر مقیم افغانوں کی واپسی پر دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں اضافے سے متعلق سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا ہمارے کچھ خدشات ہیں، ہم الرٹ ہیں اور تمام پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں، کچھ بھی ہو جائے اس پالیسی سے واپسی ممکن نہیں ہے۔

نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا افغان رہنماؤں کے حالیہ بیانات کے بعد حملوں میں تیزی آنا معنی خیز ہے، رضاکارانہ جانے والے افغان شہریوں کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیج رہے ہیں، پاکستان کے اوپر کسی بھی ملک کا کسی بھی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے، افغان رہنماؤں کے دھمکی آمیز بیانات افسوسناک ہیں۔

 

افغانستان کی عبوری حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ دونوں خودمختار ممالک ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان آنے والے 25 ہزار افغانوں کا ڈیٹا پاکستان کے پاس موجود ہے، ان لوگوں کو جن ممالک میں جانا ہے وہ بھی تیار ہیں اور ہم نے انہیں ان ممالک کو بھیجنا ہے ہم بھی تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ وہ  پاکستان کو پانچواں صوبہ نہیں بلکہ ایک الگ ملک ہیں۔

 

پارا چنار میں سرحد پار سے کارروائیوں سے متعلق سوال پر نگران وزیراعظم کا کہنا تھا اس حوالے سے صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کر دی ہیں، کسی کو بھی ایک انچ حصے پر کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔

 

ٹی ٹی پی کے خلاف افغان سرزمین میں کارروائیوں سے متعلق سوال پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا ہمیں امید ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے گی، یہ ان کے بھی حق میں ہے اور ہمارے بھی حق میں ہے۔

 

وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا افغان عبوری حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث پاکستانیوں کو ہمارےحوالے کیا جائے، پاکستان دہشتگردی میں ملوث ایسے تمام پاکستانیوں کو وصول کرنے کےلیے تیار ہے۔افغان عبوری حکومت کو سفارتی، سیاسی، فوجی، رسمی اور غیر رسمی ذرائع سے افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی کے خاتمے کا واضح پیغام دیا جاتا رہا لیکن انہوں نے کوئی خاطر خواہ اقدام نہ کیے۔

انوار الحق کاکڑ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکی اسلحہ اب بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اس کے شواہد سامنے آ چکے ہیں، ڈیڑھ لاکھ افغان ملٹری تھی، اس کا اسلحہ کہاں گیا؟ یہ امریکی اسلحہ پورے خطے میں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اور مشرق وسطیٰ تک جا رہا ہے۔

 

بعد ازاں اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں غزہ کی صورتحال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ غزہ کے لئے جتنا کیا جائے اتنا کم ہے، ڈیڑھ ارب مسلمان ان کی امداد سے مطمئن نہیں، وہاں خواتین اور بچوں پر حملے ہو رہے ہیں، ہسپتالوں پر حملے ہو رہے ہیں، وہاں جو ظلم ہو رہا ہے ایسا ظلم صدیوں میں کسی کے ساتھ نہیں ہوا، البتہ اس حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ ایک سیشن کا انعقاد کیا جائے گا جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی اور وہاں خوارک، ادویات سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پہنچانا ہے، اس کے بعد دیکھیں گے کہ مزید کیا ہونا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.