رہنماؤں میں قدرِ مشترک

67

پاکستانی حکمران اور سیاسی و مذہبی رہنما بھی کیا خوب انسان ہیں، ہمہ جہت پہلوؤں سے مرصع ایسی بارونق شخصیات کہ بعض اوقات ان کے ڈھٹائی بھرے کلام اور ’موشگافیوں‘ کو سن کر عام پاکستانی ورطہ حیرت میں مبتلا ہونے کے ساتھ ندامت میں بھی ڈوب جاتے ہیں۔ کوئی ہمہ تن کشکول توڑنے میں مصروف ہے تو کوئی ریاستِ پاکستان کو مدینہ کی مثالی ریاست میں بدلنے کا دعویدار۔ کسی نے نصیب جلے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کی نوید سنائی تو کوئی نظام مصطفیٰؐ کی نوید سنا کر اپنا الو سیدھا کرکے چلتا بنا۔ یعنی ہر کوئی اپنا ڈھول پیٹنے اور چورن بیچنے میں ماہر و ہوشیار۔ آزادی کے بعد اربابِ اختیار و ہوشیار کی جانب سے کئی دہائیوں تک چلائی اور دکھائی گئی اس طویل فلم کے بعد بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ یعنی عام پاکستانی پہلے بھی مفلسی و بدحالی کا شکار تھا اور آج بھی وہی سوختہ بال ہے جبکہ حکمران ہوں یا سیاسی و مذہبی جماعتوں کی لیڈر شپ، تو وہ آج بھی وسائل کے تمام سوتوں پر قابض خوشحال و خوش و خرم۔ ان میں سے کچھ تو اتنی ڈھٹائی سے دل کو موہ لینا والا ’سچ‘ بولتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قوم کو امریکی سازش کے بارے میں آگاہ کیا۔ اپنے لیڈر کے اس بیان کو لے کر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ملک بھر میں خوب اودھم مچایا، بالکل ویسے ہی جیسے کبھی ماڈل ٹاؤن واقعہ پر اودھم مچاتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کینیڈا کی ٹھنڈی ہواؤں کو سدھار گئے تھے۔ اپنے ’سیاسی کزن‘ کے دورِ حکومت میں پھر انہیں کبھی اپنے وہ کارکن یاد نہ آئے جو ماڈل ٹاؤن میں ان پر کٹ مرے تھے۔کہا جاتا ہے کہ اس وقت انکی رہائش گاہ پر ایک خاص دھات خاصی بڑی مقدار میں موجود تھی جس کی حفاظت ہرصورت مقصود تھی۔ غالباً اندر خانے کچھ نہ کچھ ’خون بہا‘ مل چکا تھا اس لیے اس دور میں مزید کوئی مطالبہ نہ کیا گیا اور خاموشی برقرار رکھی گئی۔

عمران خان کے جانب سے ملک کے طول و عرض میں اس شر انگیز بیانیے کے نتیجے میں بالآخر 9 مئی کے شرمناک واقعات رونما ہوئے جس کے باعث ریاستِ پاکستان کی دُنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔ وہ تو بھلا ہو عمران خان کے قریبی ساتھیوں کا جنہوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں بننے والی اس سازش کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوڑ دی اور ان میں سے کچھ وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ عمران خان سائفر کیس میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور بچتے نظر نہیں آتے۔ چار کھونٹ نظر دوڑانے پر بھی ’خاص خوبی‘ میں مولانا طاہر القادری سے زیادہ عمران خان کے اور کوئی قریب نظر نہیں آتا۔

1993ء میں طاہر القادری نے ایک خواب مقدسہ دیکھا جسے سنا کر انہوں نے اپنے مریدین کے خون کو خوب گرمایا تھا۔موصوف نے مریدین کے ایک بھرے مجمع میں انکشاف کیا تھا کہ انہیں حاصل مخصوص "نسبت مقدسہ ” کے تحت عالم رویا میں انہیں آگاہ کردیا گیا ہے کہ ان کی عمر 63 برس کردی گئی ہے۔ اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی۔ یعنی زندگی کا انجن کام کرنا بند کر دے گا۔ پھر چاہے اس انجن کی اوور ہالنگ کی جائے یا پھر تیل پانی بدلا جائے انجن چلنے کا نام نہیں لے گا۔ اپنے پیر و مرشد کی ہر بات کو حرف آخر سمجھنے والے مولانا طاہر القادری کے مریدین ابھی اس مخمصے کا شکارہی تھے کہ پیر صاحب سے بچھڑنے کے غم کو کیسے غلط کیا جائے اور سوگ منانے کا کونسا طریقہ اپنایا جائے، بیرون ملک سے آنے والی ایک خبر نے مریدین کو ایک بار پھر مشکل کا شکار کردیا۔ انہیں اب یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ شب غم منائیں یا پھر صبح پرنور کے پرکیف لمحات سے مستفید ہوں۔پیرو مرشد کی بتائی ہوئی تاریخ میں چند دن ہی باقی رہ گئے تھے کہ یہ کیا ہوا۔ انہیں پتا چلا کہ انکے پیرو مرشد بیرو ن ملک اپنی 65ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ یہ درمیان میں 64 کا حصہ کہاں غائب ہوگیا، انکے لیے کسی رازِ نہاں سے کم نہ تھا۔ شاید ملک الموت کو 63 اور 65 ہندسہ میں کوئی مغالطہ لگا۔ ورنہ پیر و مرشد کاتو پتا نہیں، مریدین بڑی شدت سے اس تاریخ کا انتظار کر رہے تھے۔ کئی تو شدت غم سے گریباں چاک کیے بیٹھے تھے۔ کہتے ہیں کہ دعاؤں سے تقدیر بدل جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ طاہر القادری نے بھی کسی گوشہ تنہائی میں ایسے شوق یقین کے ساتھ دعا مانگی ہو کہ ملک الموت کو 63 اور 65 کا فرق سمجھ نہ آیا ہو۔ ورنہ طاہر القادری نے جس ’نسبت مقدسہ‘ کا ذکر اپنے بیان میں کیا تھا اگر واقعتا پیغام وہاں سے آیا ہوتا تو پھر یقینا رتی بھر کی بھی دیر نہ ہوتی۔ موصو ف عالم برزخ میں اس وقت جنت الفردوس کے نظارے فرما رہے ہوتے۔ شیخ الاسلام مولانا طاہر القادری نے قبل ازیں مختلف اوقات میں عالم رویا میں اپنی تربیت کے حوالے سے جو تواریخ اپنے مریدوں کو بتائیں وہ بھی آپس میں نہیں ملتیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ جوش خطابت میں کچھ بھول گئے ہوں۔ لیکن یہاں اُن انکشافات کا کیا کریں جو انہوں نے لاہور میں واقع پرائیویٹ سیکٹر کے سب سے زیادہ وسیع و عریض ادارے و یونیورسٹی منہاج القرآن ٹرسٹ کے قیام کے وقت کیے تھے۔ آنسو بھری آنکھوں اور دلگداز انداز کے ساتھ انہوں نے اپنے خاص مریدین سے کہا تھا کہ انہیں ’نسبت خاص‘ کی جانب سے پاکستان آنے کے لیے قیام و طعام اور جہاز کے ٹکٹ کا کہا گیا ہے جس کے لیے انہیں فنڈز کی ضرورت ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف بھی 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف ملک کی معیشت کی بہتری اور عوام کو مہنگائی نجات دلانے کے لیے آرہے ہیں۔ تاہم سوال ہنوز حل طلب یہ ہے کہ کیا وہ اسی معیشت اور مہنگائی کو ختم کرنے کی بات کررہی ہیں جس میں ایک بڑا کردار و حصہ انکی 16ماہ کی حکومت کا ہے جس کی سربراہی شہباز شریف کر رہے تھے۔

تبصرے بند ہیں.