غزہ کی گلیوں اور سڑکوں پر خوفناک اسرائیلی حملوں اور جارحیت سے تباہ حال عمارتوں کا ملبہ اور جا بجا بکھری ہوئی لاشوں کے ساتھ گھروں، سکولوں، ہسپتالوں اور پناہ گاہوں پر ہر طرف موت کے مہیب بادل منڈلا رہے ہیں۔ جدید ترین ہتھیاروں اور فوج سے لیس طاقت کے نشے میں چُور اسرائیلی افواج کی طرف سے کمزور اور نہتے فلسطینی عوام پر اس وقت تاریخ کا بدترین ستم ڈھایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی اس وحشت اور بربریت، جس میں اب تک سیکڑوں بے گناہ معصوم بچے، خواتین اور بوڑھے افراد شہید ہو چکے ہیں، نے دنیا کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ، بھارت اور یورپی ممالک کے وہ حکمران ہیں جو اسرائیل کے اس وحشیانہ اقدام کو اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کا حق کہہ کر جائز قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف پاکستان، چین، روس، لبنان، ایران، عراق، شام، سعودی عرب، اردن، قطر اور ترکی جیسے اسلامی ممالک کے ساتھ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہیں جو نہتے عوام پر اسرائیلی جبر اور ظلم کی بھرپور مذمت کے ساتھ فوری طور پر آگ اور خون کی اس ہولی کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابتلا کی اس گھڑی میں برادر اسلامی ملکوں کے عوام اور ان کے سربراہان اخلاقی و سفارتی محاذ پر تو دل و جان سے اپنے مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں مگر ان ممالک کے عوام اور حکومتوں کی اپنی اندرونی و بیرونی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہ مصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور بہت کچھ چاہنے کے باوجود بھی ان کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں اور ریاستوں کے خلاف جہاد کے نام پر فساد کے لیے بر سرِ پیکار نام نہاد جہادی تنظیمیں اس کڑے وقت میں فلسطین اور کشمیر جیسے محاذوں پر اپنے مقہور اور مظلوم مسلمان بہن بھائیوں کی آواز پر جہاد کے لیے لبیک کیوں نہیں کہتیں۔ تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل جیسی منہ زور اور بدمعاش ریاستوں میں جہاں واقعتاً جہاد فرض ہے جانے میں ان فسادیوں کے پر جلتے ہیں کیونکہ وہاں ان کو ”ہوم کراؤڈ“ اور سپانسر شپ کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ ان اندوہناک حالات میں نیوز چینلز اور اخبارات میں آج پھر کسی محمد بن قاسم اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے نجات دہندہ کو اپنی مدد کے لیے پکارتے بے یارو مددگار معصوم نہتے فلسطینی بچوں اور خواتین کی درد کی تصویریں دیکھ کر اپنی بے بسی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بار بار ذہن میں ایک ہی سوال گردش کرتا ہے کہ کیا آج پوری امت مسلمہ میں کوئی ایسا بہادر اور عالی دماغ رہنما نہیں ہے جو طاقتور اور عیار دشمن کی ریشہ دوانیوں اور زیادتیوں کے خلاف امت مسلمہ کو مصیبتوں اور مایوسیوں کے اندھیروں سے نکال سکے۔ ایسے پریشان کن حالات میں جب کہ دنیا بھر میں ہم جیسے اربوں مسلمان بے بسی کی تصویر بنے مایوسی کی انتہا پر ہیں۔ امت مسلمہ کو نوید ہو کہ الحمدللہ! آخر کار سیالکوٹ کے نامور سپوت اور ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سرکردہ رہنما سابق وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ایک حالیہ بیان میں فلسطین میں
جاری اسرائیلی جارحیت کے مکمل خاتمے کا وہ زبردست نسخہ بتا دیا ہے جس کی امت کو ایک عرصہ سے تلاش تھی۔ جس کی نظروں سے بھی قومی اخبارات میں خواجہ صاحب کا یہ بیان یا نسخہ کیمیا گزرا ہو گا یقینا میری طرح وہ بھی اب تک خواجہ صاحب کی عقل و دانش پر ”عش عش“ کر رہا ہو گا۔ میں تو یہ سوچ کر ابھی تک ایک حیرت میں ہوں کہ ”ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی“ مگر کیا ہے کہ ”یہ بڑے نصیب کی بات ہے“ کے مصداق دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں میں سے ”یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا“۔ بے شمار شکر ہے اس پروردگار کا، جس نے یہ اعزاز ہمارے پاکستانی بھائی خواجہ صاحب کے نصیب میں لکھ دیا ہے۔ خواجہ آصف بڑے زیرک، منجھے ہوئے اور دلیر سیاستدان ہیں ان کی ہر بات میں وزن اور کوئی نہ کوئی دور اندیشی ضرور ہوتی ہے۔ جبھی تو ایک بڑی سیاسی پارٹی میں ایک سرکردہ رہنما کے طور پر وہ کئی بار ملک کی اہم وزارتوں پر براجمان رہے ہیں۔ آپ دیکھیں برسوں پرانا وہ معاملہ جس کو دنیا بھر کے بڑے بڑے مسلمان رہنما مل کر بھی ابھی تک نہیں سُلجھا سکے تھے۔ خواجہ صاحب نے کیسے ایک منٹ میں اس کا محفوظ اور پائیدار حل بتا دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں ”دعا کریں اسرائیل اور جس نے اسرائیل کو بسایا ہے دونوں
تباہ ہو جائیں“۔ یقین کریں قومی اسمبلی میں خواجہ صاحب کی دھواں دار تقریر ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے“ کے بعد سے تو میں ان کا مداح تھا ہی لیکن ان کے اس تازہ ترین بیان کے بعد تو میں خواجہ صاحب کا اس حد تک ”ڈائی ہارٹ فین“ ہو گیا ہوں کہ ”دل کرے چن دا میں منہ چم لاں نی“۔ ممکن ہے سیالکوٹ میں فردوس عاشق اعوان اور عثمان ڈار جیسے خواجہ صاحب کے مخالفین اور حاسدین اپنے تعصب کے باعث اُن کے ”سہلِ ممتنع“ میں دئیے گئے اس بیان میں پوشیدہ حکمت اور گہرائی کو نہ سمجھ سکیں یا نہ سمجھنا چاہیں۔ مگر وہ دور اندیش اور سمجھدار لوگ جو حکمت، دانش اور دانائی کی باتوں کو سمجھتے ہیں وہ یقینا خواجہ صاحب کے اس بیان کو سونے کے حرفوں میں تولیں گے۔ اس لیے خواجہ صاحب کے اس بیان کو سر سری دیکھنے کے بجائے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس بیان کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ خواجہ صاحب ایک وقت میں ملک کے وزیر دفاع بھی رہے ہیں اس لیے جنگ اور دفاع کے معاملات کو جس طرح وہ سمجھتے ہیں کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ ہاں البتہ اپنے پرویز خٹک صاحب کی بات الگ ہے اس لیے کہ اچھے وقتوں میں وہ بھی ملک کے وزیر دفاع رہے ہیں ممکن ہے جنگ اور دفاع کے معاملات کو وہ خواجہ صاحب سے بھی دو ہاتھ آگے سمجھتے ہوں۔ رہی بات ہم جیسے اَن پڑھوں اور عام بندوں کی تو جنگ اور دفاع کے معاملات سے مکمل طور پر لا علمی کے باوجود ایک کچے پکے مسلمان کے طور پر ہی سہی دعاؤں اور بدعاؤں کی طاقت پر ہمارا بھی پورا ایمان ہے۔ کیونکہ خواجہ صاحب کی طرح ہم نے بھی کہیں سے یہ پڑھ اور سن رکھا ہے کہ مظلوم کی بدعا عرش کو بھی ہلا دیتی ہے اور ہم سب مسلمان تو ہیں ہی سدا کے مظلوم۔ سو وقت آ گیا ہے کہ خواجہ صاحب کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے پوری قوم مولانا طارق جمیل کی اقتدا میں اسرائیل اور بھارت جیسے دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے فی الفور اُن پر اجتماعی بدعاؤں کا بھرپور حملہ کر دے۔
تبصرے بند ہیں.