ورثۂ ابلیس

92

دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلام کی تعلیمات کا ایک انتہائی اہم باب اخلاقیات ہے جس میں کردار کے اچھے اور بُرے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بُرے اخلاق میں سب سے خطرناک غرور اور تکبر ہے۔ ربِ دو جہاں غرور اور تکبر کو انتہائی نا پسند فرماتا ہے۔ عجز و انکساری راہِ فقر میں طالبِ مولیٰ کا ہتھیار ہے جبکہ اس کے مقابلے میں شیطان کا ہتھیار تکبر، غرور اور فخر ہے جن کے ذریعے وہ طالبِ مولیٰ کو گمراہ کرتا ہے۔ ریا، نفاق اور غرور و تکبر شیطان کے تیر ہیں جن کے استعمال سے وہ انسانی دل پر تیر اندازی کرتا ہے۔ عزازیل سے ابلیس تک کا سفر فقط ایک لفظ غرور و تکبر پر محیط ہے۔ انسان صرف عاجزی اور انکساری سے ہی اپنے رب کو خوش کر سکتا ہے، ربِ دو جہاں کو اپنے بندے کی عاجزی پر رشک آتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے مروی ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس کے دل میں رائی برابر بھی گھمنڈ ہو گا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ تکبر و غرور کی گمراہیاں اور تباہ کاریاں انسانی زندگی کے آغاز حضرت آدمؑ کے زمانے سے ہی موجود ہیں۔ اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں فخر اور تکبر کے لیے کوئی جگہ نہیں، حضرت محمدﷺ کے دین میں کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر برتری حاصل نہیں۔ فرعون کو بھی تکبر ہی نے تباہ و برباد کیا۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرعون کے امراء کے پاس نشانیاں دے کر بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا کیونکہ وہ مجرم قوم تھے۔ تکبر ہی کے باعث فرعون سمندر میں غرق ہو گیا۔ ربِ دو جہاں تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ بیشک اللہ کو تکبر کرنے والا پسند نہیں اور کسی سے بات کرتے ہوئے اپنا چہرہ کج نہ کر (گال نہ پھلا گردن نہ ٹیڑھی کر) اور زمین میں اتراتا نہ چل، بے شک اللہ رب العزت کو کوئی تکبر کرنے والا پسند نہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں۔
پڑھیا علم تے ودھی مغروری
عقل بئی گیا تلوہاں ھو
بھلا راہ ہدایت والا
نفع نہ کیتا دوہاں ھو
سر دتیاں جے سر ہتھ آوے
سودا ہار نہ تو ہاں ھو
وڑیں بازار محبت والے باھو
کوئی راہبر لے کے سوہاں ھو
تکبر انسان کا واحد فعل ہے جس کی سزا اسی دنیا میں انسان کو ضرور ملتی ہے، نیکو کاروں کو فوراً جبکہ ظالموں کی رسی دراز کی جاتی ہے، مگر جب ظا لموں کو اللہ تعالیٰ پکڑتا ہے تو انہیں بے بسی اور لاچاری کا عبرت ناک نمونہ بنا دیتا ہے، ان کی چیخ و پکار، التجائیں اور رحم کی صدائیں دوسروں کے لیے عبرت کا سبب بنتی ہیں۔ کائنات میں تکبر کا سب سے پہلا شکار ابلیس ہوا، تخلیقِ آدمؑ کے بعد اللہ رب العزت نے فرشتوں بشمول ابلیس کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو سب فرشتے سجدہ زیر ہو گئے البتہ شیطان نے انکار کر دیا اور احکم الحاکمین کے دریافت کرنے پر ندامت، شرمندگی اور معذرت کے بجائے تکبر و سرکشی اختیار کی۔ قارون حضرت موسیٰؑ کا چچا زاد بھائی اور توریت کا حافظ تھا، ربِ دو جہاں نے قارون کو اتنا مال و دولت عطا فرمایا تھا کہ اس کے مقابلے میں کوئی نہیں تھا مگر بے شمار مال و دولت ملتے ہی اس کی حالت بدل گئی اور سامری کی طرح حضرت موسیٰؑ کا دشمن بن کر ان کی تعلیمات کے خلاف عمل کرنا شروع کر دیا۔ تکبر ہی وہ منفی جذبہ ہے جو انسانوں کو آخری درجے میں خدا کا نا فرمان بنا دیتا ہے۔ انسان خود کو بہتر اور بڑا سمجھنے لگتا ہے اسے اپنی طاقت، حسن، علم، اعمال، دولت، ذہانت، مقام و مرتبے، صلاحیت اور اقتدار پر ناز ہوتا ہے۔ اس کا یہی غرور و تکبر اسے بارگاہِ الٰہی میں مجرم بنا دیتا ہے۔ تکبر ہی تمام روحانی بیماریوں کی ماں ہے انسان اپنی تمام تر طاقت کے باوجود بھی بیسیوں امراض کا ہر وقت شکار رہتا ہے، ذرا سی تکلیف میں بے کار ہو کر بیٹھ جاتا ہے، بھوک پیاس کا محتاج ہوتا ہے۔ تکبر کا سب سے پہلا سبب علم ہے کہ بعض اوقات انسان کثرت علم کی وجہ سے تکبر کی آفت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیﷺ نے فرمایا: ہر چیز کے لیے کوئی نا کوئی آفت ہے اور علم کی آفت تکبر ہے۔ جس علم سے انسان کے ا ندر تکبر پیدا ہو جائے وہ علم جہل سے بھی بدتر ہے۔ کبر اور عظمت کے لائق صرف اللہ رب العزت ہی کی ذات ہے اور کبریائی اسی کے لیے زیبا ہے۔ قومِ عاد نے بھی تکبر کیا جس کی بنا پر وہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: قومِ عاد نے زمین میں نا جائز تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے زیادہ کس کا زور ہے (یعنی کون طاقتور ہے) کیا انہوں نے نہیں دیکھا تھا کہ اللہ نے انہیں بنایا ہے وہ تو ان سے زیادہ قوت والا ہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ پس ہم نے ان پر نحوست کے دنوں میں زور کی آندھی چلائی تا کہ وہ دنیا کی زندگی میں ذلیل کرنے والے عذاب کا مزا چکھ لیں اور آخرت کا عذاب تو بہت ذلت آمیز ہے۔ تکبر کرنے والی اور تمام بزرگی والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور غرور و تکبر اللہ تعالیٰ کے سوا ہر دوسرے انسان کے لیے ایک منفی اور جھوٹا دعویٰ ہے۔ تکبر ہی کی وجہ سے طوفانِ نوح آیا اور نوح علیہ السلام کا بیٹا اسی تکبر کی وجہ سے غرق ہو گیا، اسی تکبر ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نمرود، فرعون، شداد، ہامان اور قارون جیسے بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ربِ دو جہان تکبر کرنے والوں سے نعمتوں کو صلب کر لیتا ہے انسان مٹی کا پتلا ہے اور ایک دن واپس خاک ہو جائے گا لیکن پھر بھی تکبر سے باز نہیں آتا۔

تبصرے بند ہیں.