کینیڈا اور ہندوستان میں کشیدگی

64

وہ 18 جون 2023 کی ایک عام سی اتوار کی شام تھی۔ کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے سرے قصبے میں گرودوارہ نانک صاحب میں شام کی پراتھنا (عبادت) کے لیے معمول کے مطابق عقیدت مند جمع تھے کہ اچانک پارکنگ کے حصے سے فائرنگ کی آواز آنا شروع ہو گئی۔کینیڈا کی پولیس کے مطابق دو نامعلوم نقاب پوش افراد نے ایک شخص کو نشانہ بنایا اور ان پر پے در پے کئی گولیاں داغ دیں۔ پولیس نے مرنے والے شخص کی شناخت گرودوارے کے صدر ہردیپ سنگھ نِجر کے طور پر کی۔کینیڈا کی سکھ برادری میں ان کے قتل پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کے قتل کو کینیڈا میں بسنے والی سکھ برادری نے سیاسی قتل قرار دیا اور ٹورنٹو اور وینکوور سمیت متعدد شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے۔اس قتل کی تحقیقات ہوئی اور کھرا سیدھا ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را تک چلا گیا۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پہلے اس بات کو بند کمروں میں بتانا شروع کیا اور اس مسئلہ پر نریندر مودی سے بھی بات کی لیکن جب اس کا کچھ اثر نہیں ہوا تو پھر انھیں یہ بات کھل کر کہنا پڑی اور اب پوری دنیا کے سامنے ہندوستان کا مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے لیکن اس سے پہلے کہ اس پر بات کریں ضروی ہے کہ خالصتان تحریک کے پس منظر سے قارئین کو آگاہ کر دیں تا کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
خالصتان تحریک 80کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوئی تھی اور یہ اقلیتوں پر ہندوستان کے ظلم و ستم سے بچاؤ کے لئے سکھ برادری کے لئے ایک الگ وطن کی تحریک آزادی کی جدوجہد تھی لیکن پھر اس کو ایک زبردست جھٹکا آپریشن بلیو سٹار سے لگا۔جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا ایک سکھ مبلغ تھے۔ بھارت کے شمال مغربی ریاست پنجاب میں دمدمی ٹکسال تنظیم کے لیڈر تھے۔ بھارت میں سکھوں پر ہونے والے مظالم کے بعد انہوں نے الگ ریاست کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ 1983میں جرنیل سنگھ اور اُن کے پیش روؤں نے امرتسر میں سکھوں کے
مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل میں پناہ لے لی(جو کہ جرنیل سنگھ کا ایک غلط فیصلہ تھا، اس لیے کہ انھیں گولڈن ٹیمپل میں پناہ لے کر بھارتی فوج سے لڑنے کے بجائے بھارتی فوج سے گوریلا طرز کی لڑائی لڑنا چاہیے تھی۔ کیونکہ جرنیل سنگھ کے پاس اسلحے اور ساتھیوں کا بھارتی فوج کی تعداد اور اسلحے سے کوئی مقابلہ نہیں تھا ایسے میں دو بدو لڑنے کی کوئی وجہ نہیں تھی) جس کے بعد بھارتی حکومت نے گولڈن ٹیمپل کو اسلحہ خانے کے طور پر استعمال ہونے اور عسکریت پسندوں، مطلوب مجرموں کی پناہ گاہ قرار دیتے ہوئے کارروائی کا فیصلہ کیا اور آپریشن بلیو سٹار شروع کر دیا۔ اس آپریشن میں جرنیل سنگھ بھی ہلاک ہوئے سکھ قوم آج بھی انہیں عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور انھیں خالصتان تحریک کا سب سے بڑا قائد تسلیم کرتے ہیں سکھ آج اپنے الگ ملک کے لیے بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں الگ تحریک چلا رہے ہیں۔ اس آپریشن کے بعد خالصتان تحریک کافی حد تک زیر زمین چلی گئی اور اس کا زور ٹوٹ گیا لیکن انھوں نے اس آپریشن کا بدلہ ضرور لیا۔
یہ 31 اکتوبر 1984 صبح 9 بجے کا وقت تھا۔ انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی، ون صفدر یارجنگ روڈ پر واقع اپنی رہائش گاہ کے گیٹ سے باہر نکلتی ہیں۔ ان کا رخ اپنے سرکاری دفتر کی جانب تھا۔اپنے سیکرٹری آر کے دھاون سے باتیں کرتے ہوئے ان کی نظر چائے کی پیالی اٹھائے ایک ملازم پر پڑتی ہے جو مہمان کے لیے چائے لے جا رہا تھا۔ انہیں ٹی سیٹ مہمان کے لیے نامناسب لگا۔ وہ رک کر اسے واپس جانے اور اچھا سا ٹی سیٹ لانے کا حکم دے کر آگے بڑھ جاتی ہیں۔وہ جیسے ہی پھاٹک تک پہنچتی ہیں تو دو سکھ محافظ تیزی سے ان کی طرف لپکتے ہیں۔ ان میں سے آگے والے بینت سنگھ نامی گارڈ نے پستول نکال کر اس کا رخ اندرا کی طرف کرکے گولی چلا دی۔وہ جیسے ہی نیچے گریں دوسرے سکیورٹی گارڈ ستونت سنگھ نے ان پر سٹین گن کی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ چند ہی لمحوں میں اندرا گاندھی کا خون آلود جسم گیٹ کے ساتھ زمین پر بنے ہوئے راستے پر پڑا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا کینڈین وزیر اعظم نے جس طرح کھل کر ایک کینیڈین سکھ شہری کے قتل کا الزام ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را پر لگایا ہے تو اس سے بین الاقوامی سطح پر کیا کوئی فرق پڑے گا تو اس حوالے سے کچھ باتیں بڑی اہم ہیں کہ کینیڈا کا پاکستان کی طرح ہندوستان کے ساتھ کشمیر جیسا یا کوئی اور سرحدی تنازع نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی مفاد کے لئے ایسا الزام ہندوستان پر لگا دے بلکہ اس طرح کا کوئی معاملہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ بلاوجہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جائے یہی وجہ ہے کہ جب کینیڈین وزیر اعظم نے یہ الزام ہندوستان پر لگایا تو اس کے بعد بین الاقوامی برادری نے اسے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیا اور امریکہ اور برطانیہ نے اس معاملہ کی مکمل چھان بین کا مطالبہ کیا لیکن دوسری جانب ہمیں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہندوستان اس وقت دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے اوردنیا روز اول سے ہی معاشی مفادات پر چل رہی ہے لہٰذا اس بات کے امکانات تو بہرحال کم ہیں کہ را کے جس چیف پر اس قتل کا الزام لگایا جا رہا ہے ہندوستان اسے کینیڈا کے حوالے کر دے اس لئے کہ یہ تو ایک شخص کا قتل ہے لیکن اسرائیل کی مثال لے لیں کہ اس کے مظالم سے آج تک لاکھوں فلسطینی مارے گئے اور بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف سیکڑوں قراردادیں بھی منظور ہو چکی ہیں لیکن ان سب کا اس پر رتی بھر بھی اثر نہیں ہوا تو ہندوستان کا اس پر کیا اثر ہو گا۔ اس نے آج تک کشمیریوں کے مظالم کا حساب نہیں دیا تو یہ تو ایک فرد کا قتل ہے۔ اسی طرح میانمار میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا اس کا بھی آج تک کچھ نہیں ہوسکا تو یہ کہنا کہ اس سے بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑا اثر پڑے گا درست نہیں گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی برادی کیا ایک کینیڈین شہری کو انصاف دے پائے گی یا حسب سابق مصلحت کا شکار ہو کر قاتل بچ جائیں گے؟۔

تبصرے بند ہیں.