بے چین کرنے والا کیڑا

86

گذشتہ دنوں طبی تاریخ میں ایک واقعہ رونما ہوا ہے جس نے تجسس ختم کر کے تحقیق کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اہل پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے کوئی بھی شخص اپنے مقابل سے باس اپنے ماتحت سے ماتحت اپنے باس سے، شوہر بیوی سے یا بیوی اپنے شوہر سے ڈھنگ کی بات سن کر اس پر عمل نہ کرنا چاہے اور پلٹ کر کہے کہ تمہارے دماغ میں تو بس یہی کیڑا ہے، تو اب بات یہاں ختم نہ ہو گی جسے کہا گیا ہے اُسے اپنے طرز عمل پر غور کرنا ہو گا، کیڑا ہو سکتا ہے لیکن داد کا حق دار اسے سمجھا جائے گا جس نے بغیر کسی ٹیسٹ کے جان لیا کہ کس کے دماغ میں کیڑا ہے اور کونسا ہے۔
اس حوالے سے حیران کن واقعہ آسٹریلیا کے شہر کینبرا میں پیش آیا جہاں ایک مریضہ نیورو سرجن ڈاکٹر ہری پریا کے پاس آئی اور اس نے شکایت کی اسے سر کے ایک خاص حصے میں چبھن رہتی ہے اسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے سر یا دماغ کے اندر کوئی چیز اسے کاٹتی ہے، ڈاکٹر ہری پریا نے سنی ان سنی کرنے کے بجائے اس کی بات توجہ سے سنی، وہ اسے مریضہ کا وہم کہہ کر ٹالنے اور متعدد پھیروں کے بعد ہزاروں ڈالر فیس بٹورنے کے بعد کہہ سکتی تھیں کہ میں نے تمہاری بیماری کو سمجھنے کے لئے بہت کوشش کی ہے لیکن مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا لہٰذا اب تم اپنی تسلی کے لئے فلاں سپیشلسٹ سے بھی رائے لے لو۔
ڈاکٹر ہری پریا نے مریضہ کے ضروری ٹیسٹ لیے اسکے دماغ کی متعدد زاویوں سے سکیننگ کی اور بالآخر اسکے دماغ کے ایک حصے میں موجود ”واونڈ وارم“ کو ڈھونڈ نکالا۔ اس کیڑے کی لمبائی آٹھ سینٹی میٹر تھی جسے دیکھ کر ڈاکٹر پریا اور انکے ساتھیوں کے علاوہ طبی عملہ دنگ رہ گیا، چونسٹھ سالہ مریضہ جنوب مشرقی نیو ساؤتھ ویلنر کی رہائشی ہے وہ دو برس قبل پہلی مرتبہ اس ہسپتال میں پیٹ درد اور ہیضے کی تکلیف کے باعث آئی تھی۔
انسان کے دماغ میں موجود کیڑے کا پتہ چلا لیا گیا یہ نکتہ اول ہے اسے کیسے نکالا جائے۔ آپریشن کیا جائے یا ایسے لیزر کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا جائے یا پھر اسے دواؤں کے زور پر بے بس کر دیا جائے کہ وہ بے شک وہیں مقیم رہے لیکن جس دماغ میں بسیرا کئے ہوئے ہے کم از کم اُسے تو نہ کھائے اور حرامی کیڑا ہونے کے بجائے حلالی کیڑا کہلائے۔
آئندہ ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں کئی گتھیاں سلجھیں گی کہ کیڑا دماغ کے اندر پیدا ہوا یا جسم کے کسی اور حصے سے بلا اجازت بلا ٹکٹ سفر کرتا ہوا دماغ تک پہنچا۔ پھر اس سفر میں اس نے کہاں کہاں قیلولہ کیا اس سفر میں اس نے کس قسم کا زاد راہ استعمال کیا یہ بھی سامنے آئے گا کہ کیڑا گوشت خور ہے یا سبزی خور ہے اسے میٹھا پسند ہے یا نمکین اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ انڈے دیتا ہے یا بچے، انڈے دینے کا دورانیہ کیا ہے پھر ان انڈوں میں سے کتنے گندے انڈے ثابت ہوتے ہیں اور کتنے انڈوں سے بچے نکل سکتے ہیں اگر وہ کیڑا بچے دیتا ہے تو اس کا دورانیہ کیا ہے۔ کیا وہ ایک حمل میں ایک بچہ دیتا ہے یا اس سے زیادہ بچے دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جاننا اشد ضروری ہو گا کہ کیڑے کی جنس کیا ہے۔ وہ نر ہے یا مادہ ہے۔ اگر وہ نر ہے تو بات کچھ اور ہو گی اگر وہ مادہ ہے تو پھر اس کا نر کہاں ہے، کہیں وہ ایسی مادہ تو نہیں جو اپنے اس قسم کے معاملات میں خود کفیل ہے اْسے تولید کیلئے یا ضبط تولید کیلئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں یا وہ سیلف ریلائنس پر یقین رکھتی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب امریکہ، یورپ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کا فیشن پاکستان اور اس جیسے غیر ترقی یافتہ ممالک تک دس برس میں پہنچتا تھا یہی معاملہ مختلف میدانوں میں تحقیق کے حوالے سے بھی تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ فیشن اور تحقیق جونہی منظر عام پر آتی ہے چند منٹوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل جاتی ہے۔ پس امید کی جا سکتی ہے کہ طبی ماہرین جونہی کسی حتمی نتیجے پر پہنچیں گے یہ نتیجہ اہل پاکستان کے سامنے آئے گا دنیا کی تحقیق جہاں ختم ہو گی ہماری تحقیق وہاں سے شروع ہو گی۔
پاکستان میں سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش ہوگی کہ کیڑے کی ذات کیا ہے اگلے مرحلے میں معلوم کیا جائے گا کہ یہ کیڑا صرف طبقہ امراء میں پایا جاتا ہے یا غریب کے دماغ میں بھی ہوتا ہے۔ یہ کیڑا جس شخص کے دماغ میں ہو ہر ایک سے ایک جیسا سلوک کرتا ہے یا اس کا برتاؤ مختلف ہوتا ہے، یہ براہ راست دماغ میں پیدا ہوتا ہے یا جسم کے کسی اور حصے میں بھی بسیرا پسند کرتا ہے اور گاہے گاہے وہاں چٹکیاں بھر کے مزے لیتا ہے اور انسان کو اس جگہ وقت بے وقت کھجانے پر مجبور کرتا ہے، تحقیق کے حوالے سے ایک اور نکتہ بے حد اہم ہے وہ یہ کہ جب یہ کیڑا خوش ہو تب کیا کرتا ہے اور حالتِ غم میں ہو تو پھر کیا کرتا ہے اسکی حرکتوں، کام کاج اور لائف سٹائل سے اس شخص کے رویے چال چلن اور سوچ میں کیا تبدیلی آتی ہے، کیڑے کی پسندیدہ یا ناپسندیدہ حرکات کے ری ایکشن میں انسان کیا قدم اٹھاتا ہے، یہ بھی سوچنا اور جاننا ہوگا کہ کیڑے کی طبعی عمر کیا ہے وہ کتے کی طرح کم عمر پاتا ہے یا ہاتھی کی طرح عمر دراز رکھتا ہے، وہ بے زبان ہے یا زبان دراز، اگر بے زبان ہے تو پھر اپنی فیلنگز کا اظہار کیسے کرتا ہے اگر زبان دراز ہے تو کیا اتنا ہی زبان دراز ہے جتنے ہمیں مختلف ٹی وی شوز میں شریک مہمان و میزبان نظر آتے ہیں یا اس کا درجہ ان سے کچھ زیادہ ہے۔
کیڑے کے حوالے سے جنم لینے والے سوالوں کے جواب جانے کب ملیں اور کیا ہوں لیکن ایک بات تو اب طے ہے کہ کیڑا ایک عورت کے دماغ میں ملا ہے تو یہ کسی مرد کے دماغ سے بھی دستیاب ہو سکتا ہے۔ کیڑا آخر کیڑا ہے وہ نہیں دیکھے گا کہ دماغ جج یا جرنیل کا ہے، جاگیردار یا جرنلسٹ کا ہے وہ تو بس وہاں پہنچ کر اپنا کام شروع کر دے گا اور اس کے ری ایکشن میں وہ شخصیت اپنا کام دکھائے گی جسے دیکھ کر عالم پکار اٹھے گا، اس کے دماغ میں کوئی کیڑا ہے جو اسے بے چین کئے رکھتا ہے، کاش یہ کیڑا کوئی مثبت کام کرے جیسے ریشم کا کیڑا کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.