بطورقوم ہمارا المیہ بن چکا ہے کہ ہم انسانوں سے ملے بغیر کسی کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں اور پھر اپنے اپنے مزاج کے مطابق رائے کو دوسروں پر تھوپنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ میں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں لیکن کوشش کرتا ہوں کہ اپنے تئیں اس بیماری سے بچ سکوں۔لیکن کبھی حالات و واقعات اس طرح کے ہو جاتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی دوسرے کے بارے ذہن میں فرضی خیالات بن جاتے ہیں اور بغیر تصدیق کئے جس میں شیطان وسوسوں کے ذریعے اپنا کام دکھاتا ہے اور یہ خیال یقین کی صورت سامنے آجاتا ہے۔ ایسا ہی گذشتہ دنوں میرے ساتھ بھی ہوا جب ایک کام کے سلسلے میں ایس پی صدر لاہور کے دفتر میں بطور صحافی نہیں ایک عام آدمی کی حیثیت سے جانا ہوا۔ عام عوام کا شدید رش، گرمی اور پھر پسینے سے شرابور جسم، یہ سب مل کر اندر بیٹھی خاتون ایس پی کے بارے عوام دشمنی کی بو محسوس ہو رہی تھی جو صرف میرا وہم ہی تھا۔ جیسے ہی ہماری باری آئی تو یہ تمام خیالات اپنی موت آپ مر گئے اور سامنے بیٹھی خاتون افسر سدرہ خان جو چہرے سے ہی ایک درویش خاتون محسوس ہو رہی تھیں کہ کمرے میں سائلین کی ایک کثیر تعداد کو دیکھتے اور ان کے مسائل کو بغور سننے اور حل کر نے میں مصروف ایس پی صاحبہ پوری تندہی کیساتھ اپنے کام میں مصروف تھیں۔ میں نے جب اپنے ذرائع سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اے ایس پی سدرہ خان جن کے پاس آجکل ایس پی صدر کا اضافی چارج بھی ہے۔ صبح آٹھ بجے دفتر آجاتی ہیں اور رات دیر گئے تک آفس ہی میں موجود ہوتی ہیں اور ان تمام اوقات میں وہ لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے دستیاب ہوتی ہیں۔ صدر ڈویژن، جرائم کے حوالے سے آگے ہے اور یہی وجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں کی تعدادمیں سائلین ایس۔پی کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔
قارئین کرام! میرا وہ ایک بد ترین گھنٹہ جس میں، میں متعلقہ ایس۔پی کے حوالے سے منفی سوچتا رہا، یقین جانئے بعد ازاں مسرت میں تبدیل ہو گیا۔ یہاں موجود تمام سائلین اے۔ایس۔پی صاحبہ سے انتہائی خوش اور مطمئن تھے اوراے۔ایس۔پی بھی عوام کے مسائل اس طرح سن رہی تھیں جیسے وہ ان کے گھر کے افراد ہوں اور پھر پوری تسلی اور وقت کی پروا کئے بغیر ہر سائل کی داد رسی ہو رہی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پولیس میں مزید کچھ افسر سدرہ خان جیسی سپرٹ کے ساتھ کام شروع کر دیں تو کوئی بعید نہیں کہ کچھ ہی دنوں میں محکمہ پولیس عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے سب سے آگے ہو۔
قارئین کرام! محکمہ پولیس کو حقیقی معنوں میں تبدیل کر نے کے لئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے جو کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں، مجھے امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ ان سے میری پرانی یاد اللہ ہے اورمیں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ یہ کچھ کر نا چاہتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے پولیس کے ملازمین کے لئے کیا، اسکے پیچھے بھی یہی سپرٹ ہے کہ ملازمین بھی اس کے نتیجے میں عام آدمی کو عزت دیں اور جہاں پولیس کی کوتاہیاں اور کمزوریاں ہیں، جو آئی۔جی تک پہنچتی ہیں، اس پر ضرور ایکشن لیا جاتا ہے۔ سدرہ خان جیسی قابل، ایماندار اور درد دل رکھنے والی خاتون افسر کی بطور ایس۔پی تعیناتی بھی اسی بات کا ثبوت ہے کہ پولیس میں ریفارمز تیزی کے ساتھ لائی جا رہی ہیں۔ گذشتہ دنوں جو ایک اور واقعہ میرے سامنے آیا کہ میرے ایک قریبی عزیز کا کسی تگڑے بدمعاش سے آمناسامنا ہو گیا، چونکہ وہ ایک معصوم اور شریف شہری تھا، اس نے بجائے لڑائی کرنے کے آئی۔جی پنجاب کے کمپلینٹ سینٹر پر کال کی اور اس کی انکوائری اگلے ہی روز اے۔ایس۔پی گلشن راوی کو فارورڈ کر دی گئی اور انہوں نے اسی روز دونوں پارٹیوں کو بلا کر بظاہر گمبھیر اور مشکل معاملے کو کچھ ہی دیر میں حل کرا دیا۔ مجھے یہ جان کر بھی کی خوشی ہوئی کہ بطور اے۔ایس۔پی گلشن راوی تعینات تیمور خان بھی انتہائی پڑھے لکھے افسر ہیں اور یہ بھی صبح سے شام لوگوں کی دادرسی کے لئے اپنے دفتر میں موجود ہوتے ہیں اور فوری انصاف کی فراہمی میں بھرپور ادا کر رہے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ آئی جی پولیس پنجاب کی یہی کار کردگی جاری رہی تو آنے والے دنوں میں پنجاب پولیس کے چہرے پر لگے انسان دشمنی، نفرت، بد تمیزی اور بدمعاشی کے داغ دھل جائیں گے اور پنجاب پولیس سدرہ خان اور تیمور خان جیسے افسروں کی وجہ سے اپنا روشن چہرہ سامنے لائے گی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ہر ایکشن کا فوری ری ایکشن چاہتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر مثبت کام کے نتائج تاخیر سے سامنے آتے ہیں اور تا دیر قائم رہتے ہیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.