گاؤں سے پارلیمنٹ تک

89

بوریوالا کے زندہ و بیدار ضمیر سیاست دان چوہدری قربان علی چوہان نے اپنی داستان ِ حیات ”گاؤں سے پارلیمنٹ تک“ تحریر کی ہے۔ قربان علی چوہان سیاست کے مختلف مراحل اور سیاسی اتار چڑھاؤ سے گزرتے ہوئے 1988 ء کے انتخابات میں آزاد امید وار کے طور پر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔صوبہ پنجاب میں 1988ء میں صوبائی اسمبلی میں 33 آزاد امید وار کامیاب ہوئے تھے۔نواز شریف پہلی بار 1985 ء میں جنرل ضیاء الحق کی خصوصی سرپرستی میں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ مارشل لاء کا دور تھا۔جنرل ضیاء الحق نے اپنا ہاتھ جس کے سر پر رکھنا تھا وہی ملک کا وزیر اعظم بننا تھا اور ایسے ہی لوگ صوبوں میں وزیر اعلیٰ ہونے تھے۔ جب 1988 ء کے انتخابات ہوئے جنرل ضیاء الحق دنیا میں موجود نہیں تھے۔اس لیے نواز شریف کو وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے ضمیروں کی خرید و فروخت کے میدان میں اترنا پڑا۔چھانگا مانگا کی طرز سیاست کی 1988 ء ہی میں بنیاد رکھی گئی۔صوبائی اسمبلی کے وہ ارکان جو آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے جب ان کو منہ مانگے دام اور مراعات مہیا کر دی گئیں تو وہ بخوشی اپنے ضمیر فروخت کرنے پر تیار ہو گئے۔ منفرد اسلوب کے شاعر اور میرے بہت ہی پیارے دوست عدیم ہاشمی نے کہا تھا:
اُس نے کہا کہ ہم بھی خریدار ہو گئے
بِکنے کو سارے لوگ ہی تیار ہو گئے
عدیم ہاشمی نے یہ بات محبت کے پس منظر میں کہی تھی۔لیکن یہ سیاست کا میدان تھا اور ایک بڑا تاجر و صنعتکار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کادوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ منتخب ہونا چاہتا تھا۔ نواز شریف کے پاس وہ سب کچھ تھا جس سے وہ آزاد ممبران کو خریدسکتے تھے۔چناں چہ وہ 33 ممبران ِاسمبلی میں سے 32 ممبران کو خرید نے میں کامیاب ہو گئے۔ صرف ایک باغی اور اپنے ضمیر کا قیدی قربان علی چوہان تھا جس نے بکنے سے انکار کردیا۔ نواز شریف 32 ارکان صوبائی اسمبلی کو خرید کر بھی مطمئن نہیں ہو رہے تھے۔ سیالکوٹ سے کئی بار قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے والے چوہدری اختر علی وریو کو لاہور طلب کیا گیا۔ان کا تعلق بھی گجر برادری سے تھا۔ وہ نواز شریف کی ہدایت پر قربان علی چوہان کو خریدنے بوریوالاپہنچ گئے۔چوہان صاحب کا تعلق بھی گجر برادری سے ہے۔ چوہدری اختر علی وریو جو سودا، مول اور دام طے کر کے بوریوالاپہنچے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ قربان علی چوہان کو بلدیات کا صوبائی وزیر بنایا جائے گا۔ لاہور سے وزارت کا جھنڈا لیکر قربان علی چوہان کی گاڑی بوریوالا پہنچے گی۔ ماڈل ٹاؤن میں آٹھ کنال کا کمرشل پلاٹ اور دو تین کروڑ روپے (1988ء میں یہ رقم بہت زیادہ تھی) نقد بھی۔مگر قربان علی چوہان نے یہ سب کچھ ٹھکرا دیا اور اپنا ضمیر بچا لیا۔
قربان علی چوہان منافق تھے نہ بے ضمیر اس لیے انہوں نے اختر علی وریو کو صاف صاف بتا دیا کہ چودھری صاحب میں نے بکنا نہیں۔ قربان علی چوہان لاہور میں آٹھ کنال کا کمرشل پلاٹ لے کر اور سرکاری گاڑی پر اپنے لیے وزارت کا جھنڈا لگوا کر اپنے معیار زندگی کو دوسرے سیاست دانوں کی طرح بلند کر سکتا تھا۔لیکن اسے کردار کی پستیوں میں گرنا گوارا نہیں تھا۔قربان علی چوہان کو اپنے اس فیصلے کی سزا بھی ملی۔ 1990ء میں جب عام انتخابات ہوئے تو ریاست کے سب سے طاقتور ادارے نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اس دفعہ ملک کا وزیراعظم نواز شریف ہو گا۔ جنرل اسلم بیگ اور اس دور کے آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی نے سپریم کورٹ میں خود تسلیم کیا کہ بے نظیر بھٹو اور اُن کی جماعت کو 1990ء کے عام انتخابات میں شکست دلانے کے لیے بے نظیر بھٹو کے مخالف سیاست دانوں میں خطیر رقوم تقسیم کی گئیں۔صدر غلام اسحاق خاں اور فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ کی کھلی مداخلت کے بعد کوئی صورت ہی نہیں تھی کہ 1990ء کے انتخابات میں نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد کے علاوہ کوئی اور جماعت کامیاب ہوتی اور بر سر اقتدار آتی۔ چنانچہ قربان علی چوہان بھی الیکشن ہار گئے۔1993ء کے انتخابات میں جب پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے نے مداخلت نہ کی تو بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قربان علی چوہان بھی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ قربان علی چوہان اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کی بہتری اور علاقے کی ترقی کے حوالے سے جو جائز کام بھی لے کر بے نظیر بھٹو کے پاس جاتے وہ کبھی انکار نہ کرتیں۔
18 اکتوبر 1996 ء کو ایوان صدر کی طرف سے قربان علی چوہان کو یہ پیغام دیا گیا کہ صدر پاکستان فاروق احمد خاں لغاری ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ صدر مملکت نے قربان علی چوہان سے کہا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ بے نظیر بھٹو آپ کے کام بھی نہیں کرتیں اور الٹا آپ کو جھڑکتی بھی ہیں۔ پھر جب بے نظیر بھٹو سے آپ ملاقات کے لیے جاتے ہیں تو ان کی سیکرٹری آپ کو بہت زیادہ انتظار کراتی ہیں۔اسی طرح بے نظیر بھٹو کا یہ معمول ہے کہ وہ دیگر ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ بھی عزت کے ساتھ پیش نہیں آتیں۔قربان علی چوہان نے دو ٹوک انداز میں صدر لغاری سے کہا کہ جناب آپ کی ساری معلومات غلط ہیں۔
چوہدری قربان علی چوہان نے اپنی کتاب میں آصف علی زرداری سے بھی اپنی ایک ملاقات کی رو داد تحریر کی ہے۔ 1996ء میں ہی وزیر اعظم ہاؤس میں آصف علی زرداری سے قربان علی چوہان کی ملاقات ہوئی توزرداری صاحب کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی کہ چوہان صاحب آپ کے جو کام بی بی نہ کرے وہ آپ مجھے بتا دیں۔ آپ کے سب کام پندرہ دن کے اندر ہو جایا کریں گے۔قربان علی چوہان نے زرداری صاحب سے کہا کہ میرے تو سارے جائز کام بے نظیر بھٹو کر دیتی ہیں۔اگر کبھی کوئی مشکل پیش آئی تو میں آپ سے گزارش کردوں گا۔زرداری صاحب کہنے لگے کہ چوہان صاحب آپ ہر طرح کی مشکلات میں ڈٹے رہے اور پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑا اس لیے میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔قربان علی چوہان کا جواب تھا کہ زرداری صاحب ہمارے ہاں تو بعض اوقات سالن میں تڑکا بھی نہیں ہوتااور آپ کے گھوڑے بھی سیب کھاتے ہیں تو پھر ہمارے درمیان دوستی کیسے پروان چڑھے گی۔ آصف علی زرداری نے مسکر ا کر کہاچوہان صاحب، آپ نواز شریف سے تو مل کر نہیں آئے؟ قربان علی چوہان نے جواب دیا۔کہ میں نواز شریف کے چنگل میں آنے والا نہیں۔

تبصرے بند ہیں.