ہواؤں کا رخ بدل گیا، جہاں سے ٹھنڈی اور مفرح قلب ہوائیں آتی تھیں وہ دریچے کھڑکیاں بند ہو گئیں۔ خان جدھر جاتے ہیں گرم لو کے تھپیڑے استقبال کرتے ہیں گویا شعلوں کی لپک ہے اور ہم ہیں دوستو والی کیفیت درپیش ہے۔ دور افق کے اس پار بہت کچھ طے پا گیا۔ ماضی موہوم، حال مشکوک، مستقبل نامعلوم، شہر اقتدار کے با خبر حلقے بتاتے ہیں کہ الیکشن کا فیصلہ کر لیا گیا، تاہم تاریخ کا اعلان مائنس ون کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ انتخابات کے سلسلہ میں شکوک و شبہات ابھی تک موجود ہیں۔ گویا دھند چھٹی نہیں، شکوک و شبہات کا اظہار ن لیگ کے سرکردہ رہنماؤں اور دیگر پارٹیوں کی جانب سے بھی کیا جا رہا ہے۔ ناراض ناراض سے رہنے والے شاہد خاقان عباسی نے برملا کہا کہ اکتوبر نومبر میں ہونے والے الیکشن مسائل کا حل ثابت نہیں ہوں گے۔ آئی پی پی میں جانے والے اسحاق خاکوانی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اکتوبر نومبر میں الیکشن ہوئے تو خدانخواستہ 1971ء کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔ خان کی پارٹی ہاری تو وہ نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ جیت گئی تو اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ اوپر والوں کی جانب سے بھی یہی پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کے بعد کیا جائے۔ شنید ہے کہ اس سانحہ میں اندرونی سہولت کاروں کے خلاف بھی آپریشن کلین اپ کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیمی بل پارلیمنٹ میں کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ قانون سازی کے ذریعے شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ ستاروں کا علم رکھنے والوں کے مطابق خان ستاروں کے زیر عتاب ہیں۔ انہیں خطرات نے گھیر رکھا ہے۔ 2023ء خان کے لیے سعد ثابت نہیں ہو گا۔ ان کا سیاسی کیریئر بتدریج ختم ہو رہا ہے۔ انہیں انتہائی عروج ملا مگر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے اب وہ اپنی ساکھ، سیاست حتیٰ کہ اپنی پارٹی بھی نہیں بچا سکیں گے۔ ان حالات اور ستاروں کی زبانی ملنے والے پیغامات کے باوجود خان اور ان کے حامیوں کو اپنی کامیابی کا یقین ہے۔ ایک وی لاگر نے لاہور کے سیٹلائٹ ٹاؤن کے 10 افراد سے رابطہ کیا ان سے پوچھا کسے ووٹ دو گے 9 نے خان کا نام لیا۔ دسویں نے کہا اسے دیں گے جس کا نام نہیں لے سکتے یعنی قاسم کے ابا کو وہی ہمارے فیورٹ ہیں۔ آزاد ارکان بلے کے انتخابی نشان کے بغیر بلے سے اپنی قربت بیچیں گے ووٹروں کو تاثر دیں گے کہ ان کا تعلق بلے ہی سے ہے لیکن تیز آندھی چل رہی ہے اس لیے آزاد کھڑے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کے حلقوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی والے آئی پی پی کو پیارے ہو گئے۔ ”کچھ کا ضمیر بک گیا کچھ کی انا بکی“ پیپلز پارٹی اور آئی پی پی اینٹی ن لیگ ووٹ لیں گی پی ٹی آئی کے مایوس ووٹر گھروں میں رہیں گے یا ان ہی پارٹیوں کو ووٹ دیں گے۔ ووٹنگ کی شرح 26 فیصد سے زیادہ نہیں رہے گی۔ خان کی جیب میں کھوٹے سکے پڑے ہیں جو عوام کو متاثر نہ کر سکیں گے۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے پہلے خان کے خلاف کسی مقدمہ کا فیصلہ ہو جائے گا۔ گرفتاری نا اہلی مقدر، اپیلوں کا سلسلہ شروع ہو گا ثالث و ثلاثہ گروپ خاموش بیٹھا ہے۔ پُراسرار خاموشی کسی ایڈونچر کا پتا دیتی ہے گویا ”منتظر ہے کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے، چاند کو جھٹ سے بلا لیں گے اشارہ کر کے“ اسی لیے تو خان آج کل نہ صرف عدالتوں میں آ رہے ہیں بلکہ سماعت کے بعد ایک ایک گھنٹہ کمرہ عدالت میں بیٹھے رہتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر ڈرامے بازیاں چل رہی ہیں۔ عدالتیں تعطیلات کے باوجود مصروف، ایک نے وارنٹ جاری کیے دوسری نے ضمانت دے دی اور گرفتاری سے روک دیا ایک فاضل عدالت نے جرم پر اُکسانے کو جرم قرار دینے سے ہی انکار کر دیا۔ انجمن عاشقاں میں پولیس اہلکار ابھی تک شامل ہیں عدالت نے خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے پولیس والے بھائی سمنوں کی طرح وارنٹ گھر کی دیوار پر چپکا کر چلے آئے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے سائفر کیس، توشہ خانہ کیس اور 190 ملین پاؤنڈ یا القادر ٹرسٹ کیس کی مسلسل سماعتیں ہو رہی ہیں۔ فاضل جج ہمایوں دلاور کے خلاف خان کے وکلا اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ گئے تھے بات نہیں بنی حکم امتناع اور جج کی تبدیلی کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ وکلا درخواستوں پر درخواستیں دے کر تاریخ پر تاریخ لینا چاہتے ہیں تاکہ کیس میں تاخیر کرا سکیں۔ فاضل جج نے واضح کر دیا کہ کیس کی 37 سماعتوں میں خان صرف تین بار پیش ہوئے۔ فرد جرم عائد ہو گئی گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں۔ ان کے وکلا کو 35 سوالات دیے گئے جواب لے کر آئیں سوال نمبر 20 سے 25 تک کے جواب مشکل ہیں یہ غلط سٹیٹمنٹ بھرنے سے متعلق ہیں۔ انہی پر فیصلہ ہو گا۔ یہاں بلیک ڈکشنری نہیں جوڈیشل لاز کام آئیں گے۔ فرار یا نجات کا کوئی راستہ نہیں، القادر ٹرسٹ کیس بھی دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کلیئر اور شٹ کیس ہے۔ 67 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کیوں نہ ہو سکے۔ دونوں کیسز میں عدالتی فیصلوں کا انتظار ہے اور اسی پر الیکشن کی تاریخ کا انحصار ہے۔
نگراں وزیر اعظم کون ہو گا۔ ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ حکومت ہفتہ دس دن کی مہمان لیکن معاملہ کنویں میں لٹکا رہ گیا۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے تین نام دے دیے ان میں معید یوسف، مخدوم احمد محمود اور رضا باقر شامل ہے۔ ن لیگ نے جانے کیا سوچ کر اسحاق ڈار کا نام مارکیٹ میں فلوٹ کر دیا۔ سب نے مخالفت کی حتیٰ کہ اپنوں نے کہا اسحاق ڈار کو نگراں وزیر اعظم بنانے کی خبروں سے پی ٹی آئی کو زندگی مل گئی۔ خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد مہنگائی اور بیڈ گورننس سے ن لیگ کو خاصی ہزیمت اٹھانا پڑی، اگر اسحاق ڈار کے نام پر ہی مہر لگ گئی تو ان سے ن لیگ کو تین مشکلات کا سامنا ہو گا، الیکشن میں نقصان ہو گا، اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری پر حرف آئے گا۔ پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ ہو گی۔ پنجاب میں ن لیگ کی گڈی کے بوکاٹا ہونے کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ ان خدشات کے باعث ہی ن لیگ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو رہی ہے۔ حکومت نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ایک درجن ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گی۔ جس کے پاس عالمی معاہدوں کے سوا وسیع اختیارات ہوں گے۔ ترمیمی بل میں نگراں وزیر اعظم کو وسیع اختیارات دینے کا مقصد معیشت کی بحالی اور موجودہ حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہو گا بعض حلقے پنجاب میں انتخابات نہ ہونے کے حوالے سے موجودہ انتخابات کے التوا کو بھی نتھی کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت ترقیاتی منصوبوں یا معیشت بحالی کی آڑ میں انتخابات 6 یا 7 ماہ تک ملتوی کر دے گی۔ تاہم اگر خان کی گرفتاری 8 سے 28 اگست اور اس کے بعد تک روکی جاتی رہی تو الیکشن التوا کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔ تاہم حقائق کا جائزہ لیا جائے تو 16 ماہ پہلے خان نے سائفر کا خنجر اٹھا کر اپوزیشن کی گردن کاٹنے کی کوشش کی تھی 16 ماہ بعد اسی خنجر سے اپنی انگلیاں لہولہان کر بیٹھے ہیں۔ اپنے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بیان کے بعد بیانئے بدل رہے ہیں مگر سیکرٹ آفیشل ایکٹ ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا اور انہیں طویل عرصہ سزا کاٹنا ہو گی۔ آئندہ وزیر اعظم کون ہو گا؟ کہیں فیصلہ ہو چکا کہ مائنس عمران خان کے بعد ن لیگ کو ایک بار پھر آزمایا جائے گا۔ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے۔ شہباز شریف نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح اعلان کیا کہ نواز شریف وزیر اعظم ہوں گے میں ان کے ما تحت کام کروں گا۔ اگر قضا و قدر کے فرشتوں کا یہی فیصلہ ہے تو اس کا دورانیہ طویل ہو سکتا ہے اطلاعات ہیں کہ نواز شریف سعودی عرب اور یو اے ای کے طویل قیام کے بعد پاکستان واپسی کے بجائے یورپ چلے گئے ہیں۔ وہ ستمبر کی 22 یا 23 تاریخ کو وطن واپس لوٹیں گے، واپسی سے پہلے ان کی ضمانت کے لیے درخواست دائر کی جائے گی۔ ضمانت کی صورت میں مقدمات سے بری اور نا اہلیت کے خاتمہ تک وہ لاہور میں قیام کے دوران انتخابی مہم چلائیں گے اس کے بعد ہی وہ کسی ایک یا ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کریں گے۔ ایک تولہ ماشہ وزنی خدشے کا اظہار کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہوں گے؟ گزشتہ چار سال کے دوران معیشت کی تباہی دیکھنے والوں نے بھی سبق سیکھا ہے۔ جسے کندھوں پر بٹھا کر لائے تھے۔ اس نے بُرے بُرے القابات اور ان کے خلاف بغاوت کی سازشوں تک سے دریغ نہ کر کے خاصا مایوس کیا ہے۔ چنانچہ ان کے پاس بھی کوئی متبادل نہیں رہا۔ اس دوران وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ مل کر ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ جنہیں مکمل کرنے کے لیے ایک محب وطن اور سنجیدہ قیادت کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ مزید براں سعودی عرب، چین اور یو اے ای کی حکومتوں اور سرمایہ کار کمپنیوں سمیت عالمی سطح پر نواز شریف کو ترقی کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ دوست ممالک اور وہاں کی سرمایہ کار کمپنیاں پاکستان میں سیاسی استحکام کی صورت میں اربوں ڈالر سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کر چکی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر ذمہ دار حلقے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آئندہ حکومت مخلوط ہو گی جس میں ن لیگ کو واضح برتری حاصل ہو گی۔ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی اور آئی پی پی حکومت سازی میں ن لیگ سے بھرپور معاونت کریں گی۔ ن لیگ نے اس مقصد کے حصول کے لیے گیم شروع کر دی ہے۔ پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 26 ارب 37 کروڑ مختص کیے گئے ہیں۔ جبکہ باقی صوبوں کے لیے 20کروڑ رکھے گئے ہیں۔ نگراں حکومت کے دور میں ان منصوبوں پر عملدرآمد ہو گیا تو ن لیگ عوام کے ذہنوں میں پھر سے جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تاہم عوام کیا سوچ رہے ہیں اس کا اظہار پولنگ ڈے پر ہو گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.