دریائے سواں اور سوائیوں کی ہُوڑ۔۔۔۔۔۔!

198

دریائے سواں میں برسات کے موسم میں آنے والی طغیانیوں اور اس حوالے اپنی کچھ یادوں کے تذکرے کیلئے میں نے کالم لکھا تو ”دریا کا طغیانی سے کام“ اس کا عنوان جمایا۔ یہ عنوان لکھتے ہوئے سچی بات ہے جہاں میں نے کسی حد تک عجلت، بے دھیانی اور لاپروائی سے کام لیا وہاں ذہن میں گردش کرنے والے کسی شعر یا مصرعے کے الفاظ پر بھی انحصار کیا۔ پھر محض جیسا تیسا عنوان جمانے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ آخر میں جو شعر لکھا وہ بھی اپنی یاداشت پر انحصار کرتے ہوئے غلط سلط لکھ دیا
؎دریا کو اپنی طغیانی سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا بیچ منجدھار رہے
میرا یہ کالم چھپا تو عزیزی ڈاکٹر ندیم اکرام نے بڑے دانشورانہ اور مودبانہ انداز میں کالم کے عنوان اور آخر میں لکھے گئے شعر کے حوالے سے میری فروگزاشت کی نشاندہی کی۔ عزیزی ڈاکٹر ندیم اکرام ماہر پیتھالوجسٹ ہونے کے ساتھ صاحبِ مطالعہ، صاحبِ فکرو دانش اور انتہائی پیاری اور جانفزا شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ میرے کالموں یا خامہ فرسائی کے مستقل قاری ہیں اور اس بارے میں گاہے گاہے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ”دریا کا طغیانی سے کام۔۔۔۔“ کے عنوان سے چھپے کالم کے آخرمیں شعر کے بارے میں انہوں نے واٹس ایپ پر گروپ میں اپنے تبصرے میں لکھا کہ اس شعر پر مولانا الطاف حسین حالی ؔ یاد آئے۔ یہ اُن کی ایک مشہور غزل میں سے ہے ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم محو نالہ جرس کارواں رہے
عزیزی ڈاکٹر ندیم اکرام کا میں ممنون ہوں تو اس کے ساتھ اپنے سابقہ رفیقِ کار عزیزِ مکرم و محترم نوید ملک جو مجھے اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور واہ کینٹ کے ایک ایف جی سکول میں بطور پرنسپل تعینات ہیں کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے اس کالم کے حوالے سے میری ایک اور فروگزشت کی نشاندہی کی اور لکھا کہ ”دریائے سواں مجوزہ کالا باغ ڈیم سے پہلے پیر پیائیکے مقام پر دریائے سندھ کو اپنا آپ سونپ دیتا ہے“ انہوں نے مزید لکھا کہ ”ایں چہ شک است کہ آپ کے بعد ہم آخری لوگ ہیں جن کو آپ کی دریائے سواں کا پس منظر اور برسات میں اس کے پُر شباب مناظر کی تحریری عکس بندی کا ادراک ہے۔ اللہ پاک آپ کو صحت کو سلامتی اور نوجوان نسل کو آپ کے تجزیوں سے حقائق کو سمجھنے کی توفیق دے۔“
عزیزِ مکرم و محترم نوید ملک کا یہ تبصرہ میری فروگزاشت کی نشاندہی کے ساتھ میرے لیے باعثِ افتخار بھی ہے۔ سچی بات ہے دریائے سواں کا ذکر ہو، ذہن کہ نہاں خانے میں اس حوالے سے موجود یادوں یا دوسری یادوں کا تذکرہ ہو یا ملک و قوم کے ماضی کے حالات و واقعات کے حوالے ہوں، یہ سب کچھ مجھے بہت عزیز ہے کہ ان سے جہاں مجھے ایک طرح کی حوصلہ مندی ملتی ہے وہاں میرے پڑھنے والے مہربان بھی اس تذکرے کو پسند کرتے ہیں۔ ویسے بھی گاہےگاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ راکے مصداق اس طرح کے تذکرے جاری رہنے چاہئیں کہ ان سے بہت کچھ حاصل بھی ہوتا ہے۔د ریائے سواں ہمارے لیے اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ہمارے تھانہ چونترہ کے بہت سارے دیہات و قصبات کہ جن کے بیچ میں سے یا قریب سے یہ دریا بہہ کر گزرتا ہے انہیں ”سواں“ کا علاقہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور یہاں بسنے والوں کو ”سوائیں“ بھی کہا جاتا ہے۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ دریائے سواں مری اور کوٹلی ستیاں کے پہاڑی اور کوہستانی علاقوں اور دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقوں سے بہتا ہوا جی ٹی روڈ پر سواں کیمپ کے مقام پر اپنے اوپر بنے قدیم پُل کے نیچے سے بہہ کر آگے گزرتا ہے تو نالہ لئی کے اس میں شامل ہونے کی بنا پر اس کے پانی کی مقدار میں جہاں اضافہ ہو جاتا ہے وہاں مشرق میں اس کے بلند چٹانی کناروں اور اُن کے پیچھے دور دور تک پھیلے وسیع رقبوں میں بحریہ فیز6,7,8 اور 9 کی جدیدبستیاں اپنے عالی شان اور پُر تعیش مکانات کے ساتھ کھڑی ہیں تو مغرب میں اپنے کئی سب سیکٹرز اور ایکسٹنشنز سمیت DHAفیز 1 پھیلا ہوا ہے جو اب اڈیالہ جیل سے چار پانچ کلو میٹر آگے اڈیالہ گاؤں تک پہنچ چکا ہے اور اپنے ریور ویو ایکسٹنشن کے انتہائی مہنگے پلاٹوں کی بُکنگ کر رہا ہے۔ گویا دریائے سواں بہت سارے اداروں کے تجارتی مقاصد میں بھی اُن کے کام آ رہا ہے۔ تاہم میرے لیے دریائے سواں کے کچھ دیگر پہلو زیادہ اہم ہیں۔
دریائے سواں شاہ پور داہگل سے آگے ذرا ہموار سطح زمین پر بہتا ہوا گزرتا ہے تو یہاں اس کی رفتار میں تندی و تیزی نہیں اور اس کا پھیلاؤ بھی زیادہ ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آس پاس کے علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح زیادہ گہری نہیں ہے۔ اس علاقے میں بکثرت کنویں کھدے ہوئے ہیں یا چھوٹے موٹے بور ہیں جن پر موٹریں لگی ہوئی ہیں۔ پانی وافر ہے جس سے کھیت خوب سیراب ہوتے ہیں جن سے سارا سال سبزیاں اُگائی جاتی ہیں اور ہر روز شام اور رات کو بیسیوں سوزوکی اور مزدا پِک اَپس تازہ سبزیوں سے لدی پنڈی اور اسلام آباد کی سبزی منڈیوں کا رُخ کرتی ہیں۔ اڈیالہ روڈ کے متوازی دریائے سواں کے پار میاں احمد، نکڑالی، گنگال اور کاہنہ وغیرہ کے دیہات آباد ہیں۔ کاہنہ کے نزدیک دریائے سواں پر ایک بڑی ”ٹہن“ (کئی سو فٹ تک پھیلا ہوا گہرے پانی کا قطعہ) کب سے موجود چلی آ رہی ہے۔ اسی طرح کی ایک ”ٹہن“ ہمارے گاؤں کے شمال مغرب میں منیالہ گاؤں کو جانے والے پیدل راستے کے قریب بھی واقع ہے اس کو ”پڑیوں والی ٹہن“ کے نام سے پکارا جاتا ہے کہ یہاں دریا کے دائیں کنارے بڑی بڑی پتھریلی چٹانیں جنہیں مقامی زبان میں پڑیاں کہاجاتا ہے موجود ہیں۔ دریا کا پانی کچھ ان کے نیچے سے اور کچھ ان کے دامن سے بہہ کر گزرتا ہے۔ یہاں سے آگے دریا کا رُخ مغرب سے جنوب مغرب کی طرف ہو جاتا ہے اور اس کی رفتار بھی سُست ہو جاتی ہے۔ عجیب بات ہے دریا اپنے اندر بہہ کر آنے والی اشیاء یا مردہ اجسام کو اکثر اپنے اس حصے میں کنارے پر لگا دیتا ہے۔ پچھلے زمانوں کی بات ہے جب دریا پر ابھی ہمارے گاؤں چونترہ والا یا اڈیالہ روڈ پر گورکھپور والا پُل نہیں بنے تھے تو برسات کے موسم میں دریا میں اچانک طغیانی آ جانے کی وجہ سے دریا کے آر پار جانے والے لوگ اس کی لپیٹ میں آ کر بہہ بھی جایا کرتے تھے۔ پھر دریا کے کنارے ان کے مردہ جسم (نعشوں) کی تلاش شروع کی جاتی تھی تو اکثر ایسے ہوتا کہ مردہ جسم یا نعش وغیرہ ہمارے گاؤں کے قریب دریا کے اسی حصے میں ریت میں کچھ دھنسی مل جایا کرتی تھیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں ہائی سکول میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا تو نواحی گاؤں چک سگہو کا ایک لڑکا محمد تاج میرا ہم جماعت تھا۔ سکول میں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ تاج اپنے گاؤں سے کچھ فاصلے پر دریا کے پار واقع ایک دوسرے گاؤں میں اپنی بہن سے ملنے کے لیے گیا۔ واپسی پر دریا میں کچھ طغیانی اور پانی زیادہ تھا۔ دریا عبور کرتے ہوئے تاج پانی میں گر گیا اور ڈوبنے سے اُس کی موت واقع ہو گئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اگلے دن اس کی نعش ”پڑیاں والی ٹہن“ سے آگے ہمارے گاؤں کے مغرب میں جہاں دریا سُست رفتار سے بہتا ہوا گزرتا ہے کنارے پر آدھی ریت میں دھنسی ہوئی ملی۔ گاؤں میں شور مچ گیا۔ میں بھی دیکھنے گیا اور بعد میں کتنا عرصہ وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے آتا رہا۔
اُوپر میں نے اپنے گاؤں اور تھانہ چونترہ کے دوسرے دیہات و قصبات جن کے قرب و جوار سے دریا سواں بہہ کر گزرتا ہے کے لوگوں کو ”سوائیں“ کہہ کر پکارے جانے کا ذکر کیا ہے۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ دریائے سواں مری، کوٹلی ستیاں، دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے تھانہ صدر بیرونی کے دیہات و قصبات کے قرب و جوار سے گزرتا ہے تو یہاں کے لوگ دریائے سواں سے ”سوائیں“ ہونے کا تعلق نہیں جوڑتے اور نہ ہی اس کے حوالے سے اپنی کوئی پہچان ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ تھانہ چونترہ کے چھوٹے بڑے دیہات وہ قصبات جن میں چونترہ، ادہوال، سنگرال، جھنڈو سیداں، جادہ، چک امرال، ڈھولیال، پنڈ ملو، سہال، تترال، جسوال، سروبہ، ڈھری موہڑہ، چکری، گاہی سیداں، کوہلیاں حمید، بلاول، ہریانوالہ اور ڈھڈمبر وغیرہ شامل ہیں، یہاں کے لوگوں کو ”سوائیں“ کہہ کر پکارا نہیں جاتا بلکہ یہاں کے لوگ اپنے ”سوائیں“ ہونے کی پہچان پر ناز بھی کرتے ہیں۔
یہ کوئی اہم بات نہیں کہ1985 ء سے 2013ء تک مسلسل 8 بار قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز رکھنے والے مسلم لیگ ن کے سابق اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان جن کا آبائی گاؤں چکری ہے وہ بھی ”سوائیں“کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ”سوائیوں“ کی اپنی کچھ خصوصی عادات اور خصوصیات ہیں جن میں اُن کی خودداری، غیرت مندی اور علاقائیت پسندی کے ساتھ اُن کی ”ہُوڑ“ (جس کا مطب ایک طرح کی انتقام بھری ضد اور خود سری لیا جا سکتا ہے) بھی بہت مشہور ہے۔ اس ”ہُوڑ“ کی وجہ سے ”سوائیں“نقصان بھی اُٹھاتے رہتے ہیں اور بقول چوہدری نثار علی خان خود انہوں نے بھی اس کی وجہ سے کافی نقصان اُٹھایا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ چوہدری نثار علی خان ہوں یا کوئی اور ”سوائیں“ کیوں نہ ہو، یہ جاننے کے باوجودکہ ”ہُوڑ“ نقصان دہ ہے وہ اس کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

تبصرے بند ہیں.