فوری آن لائن قرضوں کا جال

180

انسانی حقوق کے سرگرم رہنما معروف وکیل اشتیاق چوہدری کئی ماہ قبل اس فراڈ کی جانب توجہ دلاچکے ہیں جس کے جال میں پھنس کر راولپنڈی میں شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ نے خودکشی کرلی۔ اشتیاق چوہدری ایڈوووکیٹ نے اپنے ایک وی لاگ میں اس فراڈ کے بارے میں تفصیل سے بتایاکہ اس کے ذریعے کس طرح مجبور لوگوں کو معمولی رقم قرض پر دے کر کئی گنا وصول کیا جاتا ہے۔ راولپنڈی میں قرض لینے والے مرحوم شخص نے آن لائن قرضے کی ایپ صرف 13000روپے کا قرض لیا تھا اور یہ قرضہ اتارنے کے لیے 22,000 روپے کا ایک اور قرض اسی طرح کی ایک اور ایپ سے لیا تھا، جس سے نجات حاصل نہ کرسکا اور خود کو ختم کرلیا۔
پلے اسٹور پر جاکر دیکھا جائے تو تقریباََ 200 سے زائد قرض دینے والی ایپس موجود ہیں۔ان ایپس میں سے بہت کم ہیں جو حکومتی ادارے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے لائسنس یافتہ ہیں۔
ان ایپس کو تقریباََ پانچ کروڑ لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ جو پاکستان میں پلے اسٹور سے سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانیوالی ایپس میں شامل ہے۔ہمارے یہاں عام انتخابات میں جو ووٹ ڈالے جاتے ہیں وہ تقریباََ چار کروڑ کے لگ بھگ ہوتے ہیں۔یعنی ان ایپس کو ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعداد حکومت کا ا نتخاب کرنے والوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس مافیا کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے اس کے اشتہار دیے جاتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کریں اور ایک سے دو
دن میں 10,000 سے 20,000 کا قرض حاصل کریں۔اس کے بعد شناختی کارڈ نمبر مانگا جاتا ہے اور پھر ایگریمنٹ بھیجا جاتا ہے۔اس کے بعد وہ آپ کو رقم بھیج دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ رقم ہزاروں میں ہوتی ہے لاکھوں میں نہیں۔قرض کی یہ ایپس جو پلے اسٹور پر درجنوں کے حساب سے موجود ہیں، انھیں ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد ڈاؤن لوڈ کرنے والے کے فون کا سارا ڈیٹا ان کو ٹرانسفر ہو جاتا ہے جو اس ایپ کو کنٹرول کررہے ہیں۔ موبائل میں موجود سارے نمبر، تصاویر اور ویڈیوز تک ان کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ مافیا قرض لینے والوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ اس کا زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں۔ اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ کے مطابق اس بلیک میلنگ کے سے تنگ آکر بہت سی خواتین خود کشی کرچکی ہیں۔یعنی پہلے قرض دیا جاتا ہے، پھر اس قرض کی کئی گنا وصولی کے لیے ہراساں اور بلیک میل کیا جاتا ہے اور بلیک میلنگ کا سب سے بڑا ہتھیار اس ان کے پاس موبائل میں موجود تصاویر اور ویڈیوز ہوتی ہیں جو ان کے پاس یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد ان کے پاس چلی جاتی ہیں۔اس بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے مرد و خواتین انھیں کئی گنا رقم دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوجاتے وہ بلیک میلنگ کرتے رہتے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ پہلے تو ذاتی یا فیملی کی اس طرح کی تصاویر نہیں ہونی چاہیے کہ آپ اس کی وجہ سے کسی بلیک میلنگ کا شکار ہوں۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کی قرض دینے والی ایپس اور کوئی غیر ضروری ایپس کو ڈاؤن لوڈ نہ کریں کہ جس کے ذریعے سے موبائل کا ڈیٹا کسی اور کے پاس منتقل ہوجائے اور بلیک میلنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے۔کیوں کہ یہ قرض نہیں بلکہ ایک ایسا جال ہے جس سے نکلنا ناممکن ہوجاتاہے۔کیونکہ ایسے کئی کیس رپورٹ ہوئے ہیں کہ قرض لینے والے نے بیس ہزار کی جگہ اڑھائی لاکھ روپے دیئے ہیں مگر پھر بھی یہ مافیا ان کی جان نہیں چھوڑتا ہے۔ایسا بھی ہوا ہے اور یہ زیادہ تر خواتین کے ساتھ ہوا ہے کہ یہ ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد جب ڈیٹا اس مافیا کے پاس چلا جاتا ہے تو وہ ڈیٹا میں موجود تصاویر اور ویڈیو سے کسی اور طرح کی تصاویر اور ویڈیو مکسنگ کرکے بنا لیتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، اور پھر یہ بلیک میل کرتے ہیں اور رقم کے ساتھ ساتھ مکروہ مطالبا ت بھی کرتے ہیں۔
ایک طرف غربت افلاس اور معاشی مجبوریوں کا یہ حال ہے کہ لوگ چند ہزار کا قرض کا لینے کے لیے ایک اندھی کھائی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ دوسری جانب یہ صورتحال ہے کہ تحریک انصاف کے حکومتی دور میں کرونا وبا کے دوران مختلف صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات کو تین ارب ڈالر کے بلا سود قرضے دیے گئے تھے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے ان شخصیات کے نام پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ظاہر کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی اس معاملے کو بند کردیا ہے کہ اس سے صنعتی اور کاروباری شعبے میں مایوسی پھیلنے کا خدشہ ہے۔
ابلیس کے ہاتھوں میں ہے دنیا کی حکومت

تبصرے بند ہیں.