نعرہِ مستانہ

326

القادر یوینوسٹی کے اسلامک اسٹیڈیز کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر ظہور اللہ ازہری صاحب ایک صاحبِ علم شخصیت ہیں۔ تصوف، الٰہیات اور سیرت النبیؐ کے حوالے سے آپ کی خدمات گراں قدر ہیں۔ گزشتہ نومبر میں القادر یونورسٹی میں تصوف کانفرنس کے انعقاد کے روحِ رواں تھے۔ عوام الناس ان کی سعی سے قدرے لاعلم ہیں، کیونکہ مخصوص حالات کی وجہ سے میڈیا نے اس کانفرنس کی کاروائی نشر نہیں کی۔ تعلیم، صحت اور مفاد عامہ کے ادارے جس دور میں بھی بنیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ اس فقیر کو بھی اس کانفرنس میں ایک مقالہ لکھنے اور پڑھنے کی دعوت ملی تھی، لیکن عین انہی دنوں سفرِ حرمین شریفین کی سعادت حاصل کر رہا تھا۔ خیال تھا کہ وہاں کی مقدس فضاؤں میں مقالہ مکمل کروں گا اور وہیں سے ارسال کر دوں گا، لیکن زائرین جانتے ہیں کہ وہاں کی ایک الگ نوعیت کی مصروفیت ہوتی ہے جو دیگر تمام مشغولیات کو اس طرح بہا کر لے جاتی ہے، جیسے قلزمِ رحمت کی موج، وجود کے ساحل پر پڑی ہوئی سئیات کی باقیات کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ چنانچہ جب تک مضمون بعنوان ” فی زمانہ تصوف کو لاحق خطرات” ارسال کیا، تب تک قدرے تاخیر ہو چکی تھی اور کانفرنس میں شامل ہونے والے مقالہ جات اشاعت کے لیے جا چکے تھے۔اطلاعات یہ ہیں کہ اب یہ مضمون یونیورسٹی کے جریدے میں اشاعت شامل کر لیا گیا ہے۔ ڈآکٹر ازہری صاحب نے مجھ ایسے گوشہ نشین سے جس طرح پے در پے یاد دہانیوں کے ساتھ مضمون لکھوایا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے، سچ پوچھیں تو میں دل ہی دل میں ان کا معترف ہو چلا ہوں۔ گزشتہ دنوں محترم ازہری صاحب نے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک معروف عارفانہ کلام َ” میں نعرہِ مستانہ” کی شرح کی بابت استفسار کیا۔ یہ کلام عابدہ پروین نے گایا ہے، اس کی طرز اس قدر مترنم اور گائیکی ایسی مسحور کن ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کلام شہرہ آفاق ہوگیا۔ ابھی حال ہی میں سید اسرار شاہ نے عابدہ پروین کی سنگت میں بھی نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ میں نے عرض کیا، اگرچہ اس کلام کی
شرح کے حوالے سے قبل ازیں بھی استفسارات ملتے رہے لیکن اب اس میں آپ کی معبتر آواز شامل ہونے سے مجھ پر خامہ فرسائی گویا واجب ہو گئی ہے۔
یہ کلام آپ کے شعری مجموعہ "شب چراغ” میں شامل ہے۔ اس کی تفہیم سے قبل اسی مجموعے میں "نوائے راز” کا مطالعہ ازحد ضروری ہے تا آن کہ نعرہ بلند کرنے والی "میں ” کا تعارف ہو جائے۔ یہ "میں ” انائے بشری ہرگز نہیں بلکہ اس کا تعارف یہ ہے کہ۔
میں علی ولی کا غلام ہوں
اسی تاجدار کی بات ہوں
مزید براں یہ کہ۔
میرا نام واصفِ باصفا، میرا پیر سیّدِ مرتضیٰ
میرا ورد احمدِ مجتبیٰؐ، میں سدا بہار کی بات ہوں
باب العلم، باب علمِ معرفت سّیدِ مرتضیٰ کے مرید باصفا کو جب اس در سے شرابِ معرفت عطا ہوئی تو اسے استغراق لاحق ہوا۔ یہ استغراق کیا ہے، یہاں باب العلم سے منسوب یہ عربی کے اشعار ہیں، جن کا ترجمہ و مفہوم عرض کیے دیتے ہیں۔
”معرفتِ الٰہی وہ شراب طہور ہے، جس نے اسے چکھا، اس نے اسے پی لیا، جس نے اسے پی لیا، اسے سکران ہوا (مستی ملی)، جسے سکران ہوا، وہ اس میں ڈوب گیا (مستغرق ہوا)، جو مستغرق ہوا، اسے مزید استغراق لاحق ہوا، جسے مزید استغراق لاحق ہوا، اس نے اسے پا لیا (وجد)، جس نے اسے پالیا، اس کے اور اس کے حبیب میں کوئی فرق نہ رہا”۔
بعض لوگ ان اشعار کوابنِ عربی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی منسوب کرتے ہیں۔ بہرطور نسب کی بات نہیں، بلکہ نسبت اور انتساب کی بات ہے۔ ہم یہاں اس مستی اور استغراق کو جس وجدان خیز شخصیت سے منسوب کر رہے ہیں، اس نے یہ نعرہ یوں بلند کیا ہے—” میں نعرہِ مستانہ” کی تفہیم کے لیے واصف علی واصف ایسے قلندر کا ایک اور شعر ہے جو "شب راز” میں درج ہے، اس کیفیت کا قدرے احاطہ کرتا ہے اور معنویت بھی آشکار کرتا ہے۔ معرفت اپنی انتہا پر وصال و فراق سے آزاد ہو جاتی ہے۔
مستی فرقت کی ہو یا غربت کی
مست کہتا ہے بات جرأت کی
بوترابی شراب خانے سے
پی کے آنا ہے بات ہمت کی
”میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ“۔ یہاں "شوخیِ رندانہ” پر غور کریں۔ رند، زاہد کا الٹ ہوتا ہے۔ زاہدِ خشک معروف محاورہ ہے۔ زاہد اپنے اعمال کے باٹ سے خدا کا مول لگانے کی کوشش کرتا ہے، وہ اپنی عبادت پر اکتفا کرتا ہے، اور اپنی عبادت کا معاوضہ بصورتِ منصبِ دنیا یا بہشتِ عقبیٰ طلب کرتا ہے۔ جبکہ رند خدا مست ہوتا ہے۔ وہ ذات کی رجوع کرتا ہے، اور اپنی عبادت، محنت اور ریاضت کو کسی خاطر میں نہیں لاتا، وہ جزا و سزا کے جھمیلوں سے خود کو آزاد کیے دیتا ہے۔ دراصل وہ عبادت کے ساتھ ساتھ محبت کا داعی بھی ہوتا ہے۔ عابد اور معبود کے رشتے کا نام عبادت ہے، اور عاشق و معشوق کے تعلق کا نام عشق ہے۔ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک قول معروف ہے، یاالٰہی! میں تیری عبادت جہنم کے خوف کی وجہ سے یا بہشت کی تمنا کی وجہ سے نہیں کرتا، بلکہ میں تیری عبادت اس وجہ سے کرتا ہوں کہ تو ہے ہی اس لائق کہ تیری عبادت کی جائے۔ یہ رند کی جرات ہوتی ہے کہ وہ ذات سے بالذات مخاطب ہو سکے۔ ذات جب ذات سے تعلق میں آتی ہے تو بشریت محجوب ہوتی ہے اور محبوب مشہود ہو جاتا ہے، بشریت کا انکسار قدرے مدھم ہو جاتا ہے اور نورابیت کا شمسِ بازغہ شعور کے افق پر طلوع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں روح کی مستی وجود کے حجاب کو چیرتی ہوئی باہر نکل آتی ہے۔ بشریت کے حجاب سے نکلتی ہوئی یہ نوری کرن شوخیِ رندانہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔
”میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا“۔ معرفت ایسی شرابِ طہورا کبھی مکمل سیراب نہیں کرتی۔ یہ پیاس جس کے وجود میں بھڑکتی ہے، اس کے اندر پیا کی مزید بڑھ جاتی ہے۔ وہ ذات جو لامحدود ہے، اس کی طرف سفر بھی لامحدود ہوتا ہے۔ لامحدود کی طرف محدود کا سفر اسے لامحدودیت کے اسرار سے آشنا کرتا ہے۔ لامحدود پیراڈائم میں "یہاں ” اور "وہاں ” کی بندش نہیں۔ زمان و مکان کی جہات یہاں معدوم ہو جاتی ہیں۔ لامحدود کی جانب محوِ سفر،لامکاں کا جلوہ مکاں میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، چنانچہ شرابِ معرفت پی کر سکران میں جانے والے وہاں کا جلوہ یہاں دیکھ لیتے ہیں۔ ماوراء کو ماسواء میں دیکھ لینا گویا اس آیت کا عملی مشاہدہ کرنا ہے: "ربنا ماخلقت ھٰذا باطلا“۔اے ہمارے رب تو نے جو کچھ خلق کیا، اس میں کچھ بھی باطل نہیں!!

تبصرے بند ہیں.