یہ بھوک تھی یا پیسے کی ہوس لیکن کچھ تھا ضرور کہ جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا وہ ہو رہا ہے۔ ایف آئی اے نے ایک ایسے گروہ کو گرفتار کیا ہے جو اسرائیل میں کام کر رہا تھا۔ وہ وہاں کون سے ڈی سی لگے ہوئے تھے چھوٹے موٹے کام کر رہے تھے لیکن یہ کام تو پاکستان میں بھی بہت ہے۔ لمبا سفر کرنے کے بعد اسرائیل کا راستہ کیسے تلاش کرتے رہے۔ یہ محض سسپنس سے بھری داستان نہیں ہو سکتی۔نہیں معلوم اس کے پیچھے کیا ہوتا رہا۔
یہ بات تو پہلے سے ایجنسیوں کے علم میں تھی کہ کچھ لوگ مقدس مقامات کی زیارت کے لیے اردن کے راستے اسرائیل جاتے ہیں اور اسی راستے واپس آتے ہیں اور یہ بھی بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ اسرائیل میں تیار ہونے والا سامان اردن کے راستے مختلف اسلامی ممالک کی منڈیوں میں فروخت ہوتا ہے لیکن یہ پہلی دفعہ سنا کہ پاکستانیوں کا ایک گروہ مزدوری کے لیے اسرائیل پہنچ گیا، انہوں نے وہاں تک پہنچنے کے لیے دو مختلف روٹ استعمال کیے۔ پتہ اس وقت چلا جب اسٹیٹ بنک نے یہ انکشاف کیا کہ کچھ لوگ اسرائیل سے باقاعدگی سے رقم بھیج رہے ہیں۔
ایف آئی اے کرائم سرکل کے پاس ’سرکاری ذرائع‘ سے ایک انکوائری آئی تھی کہ پاکستان میں آنے والی ترسیلات زر میں کچھ مشکوک ٹرانزیکشنز ایسی ہیں جو اسرائیل سے آئی ہیں۔یہ ٹرانزیکشن 2016 سے 2021 کے درمیان ہوئی تھیں۔ اس معاملے کی دو ماہ تک تحقیقات ہوئی۔کیس کی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ ملزمان نے اسرائیل سے 108 ٹرانزیکشنز کے ذریعے میر پور خاص پوسٹ آفس ایک کروڑ 13 لاکھ روپے بھجوائے۔ان افراد کے خلاف درج مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ ان ملزمان نے ایک اسرائیلی ایجنٹ اسحاق متاط کو اسرائیل میں ملازمت کے لیے تین لاکھ سے لیکر سات لاکھ روپے تک دیے۔ ایف آئی آر کے مطابق گرفتار ہونے والے تمام افراد اسرائیل میں گاڑیاں دھونے کا کام کرتے تھے۔ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس اسرائیلی ایجنٹ کے اردن میں بھی انسانی سمگلروں کے ساتھ تعلقات تھے جن کی معاونت سے ایسے ممالک کی جعلی دستاویزات حاصل کی جاتی تھیں جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے اور ان دستاویزات کے ذریعے ان لوگوں کو اسرائیل بھیجا جاتا تھا۔
ویسے اس معاملے پر پر اسرار خاموشی معنی خیز ہے۔ جب پاکستانی مصالحے اسرائیل کے بازاروں میں فروخت ہونے کی خبر سامنے آئی تھی سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ یہ کہا جانے لگا کہ موجودہ حکومت نے اسرائیل کو درپردہ تسلیم کر لیا ہے اور اس کے ساتھ تجارت شروع کر دی ہے لیکن اب سب خاموش ہیں۔ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ ان میں سے چار افراد وہ ہیں جن کے پاس شیجن ویزہ تھا۔ یہ لوگ شیجن کو چھوڑ کر اسرائیل میں گاڑیاں دھونے کا کام کرنے کیوں گئے تھے۔
اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی ہر معاملہ کی خبر رکھتی ہے تو یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا وہ بے خبر تھے یا ان کی سرپرستی میں یہ کام ہو رہا ہے۔ دوسرا یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ صرف یہ لوگ ہی وہاں پہنچے ہوں مزید کئی لوگ بھی وہاں موجود ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے وہ افراد جو امریکہ اور برطانیہ کے شہری ہیں جب وہ اپنے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کرتے ہیں تو ائیرپورٹ پر ان سے باقاعدہ تفتیش کی جاتی ہے کیونکہ عمومی طور پر ہر پاسپورٹ پر جائے پیدائش لکھی ہوتی ہے اور اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ صاحب پاکستان میں پیدا ہوئے تھے تو اسرائیلی حکام یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ وہ وہاں کیا لینے آئے ہیں۔ ان حالات میں ذرا سوچیے کہ اردن کے راستے جو لوگ اسرائیل میں داخل ہوئے اور وہاں جا کر وہ کام کر رہے تھے تو کیا ان کے علم میں یہ سب نہیں تھا۔
یہ انکشاف بھی ہو چکا ہے کہ پاکستان سے ایک خاص گروہ کے لوگ اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی میں کام کرتے رہے ہیں اور یہ اطلاعات بھی موجود رہیں کہ کچھ افراد کو اسرائیل کی فوج میں بھرتی بھی کیا گیا۔سوشل میڈیا پر جا کر آپ خود تلاش کر لیں کہ پاکستانی اوریجن کے لوگ کیا اسرائیل کی فوج میں بھرتی ہیں تو آپ کو اس حوالے سے بہت سارا مواد مل جائے گا۔
واپس اس کہانی کی طرف آتے پیں۔ میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے ان افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے بتایا جا رہا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس خاندان کے کچھ افراد اب بھی اسرائیل میں موجود ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس خاندان کی ایک خاتون کی شادی اسرائیل میں ہوئی ہے اور جس اسحاق متاط کی بات ہو رہی ہے وہ اس خاتون کا خاوند ہے۔ رفقا نامی خاتون چالیس برس قبل پاکستان سے اسرائیل گئی تھی اور اس نے وہاں جا کر شادی کر لی۔ رفقا کے دو بھائی اور ایک بہن پاکستان میں مقیم ہیں۔ اس خاتون کے دونوں بھائی اور بہن بھی اسرائیل کا سفر کر چکے ہیں ان کی عمریں اس وقت 65 برس سے اوپر ہیں اس لیے ایف آئی اے نے انہیں گرفتار نہیں کیا اور ان کا نام ایف آئی آر میں درج نہیں ہے۔
گرفتار ہونے والوں میں ایک حافظ قران ہیں اور بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ملزم جنرل اسٹور چلاتا ہے اور خاتون پارلر کا کام کرتی ہے۔علاقے کے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہاں یہ مشہور ہے کہ یہ لوگ سوئٹزلینڈ میں کام کرتے ہیں۔ یہ حیران کن انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ میرپور خاص اور عمر کوٹ میں یہودی مقیم ہیں۔ 2013 کے عام انتخابات میں 809 افراد نے خود کو یہودی ظاہر کیا جبکہ 2017 میں یہ تعداد 900 تھی تاہم یہ لوگ اپنی شناخت کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ 2019 میں 31 سالہ ایک شخص کو جو خود کو یہودی ظاہر کرتا تھا حکومت نے یہ اجازت دے دی کہ وہ اسرائیل جا کر اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکتا ہے۔
یورپ، برطانیہ اور امریکہ کی شہریت لینے کے لیے کئی لوگ خود کو قادیانی ظاہر کرتے رہے اور برطانیہ اور جرمنی میں یہ شرح دوسرے ممالک کی نسبت کافی زیادہ رہی اور اس حالیہ اسکینڈل کے بعد یہ امکان بھی موجود ہے کہ اسرائیل جانے کے لیے لوگ خود کو یہودی ظاہر کرنا شروع کر دیں۔ ویسے یہ حیران کن نہیں ہے کہ سندھ میں اتنے زیادہ لوگوں نے ووٹر لسٹ میں اپنے مذہب کے خانے میں یہودی لکھوایا ہوا ہے۔ کیا ان سب کی مائیں یہودی تھیں؟
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور پاکستان کے پاسپورٹ پر یہ لکھا گیا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے سوا تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث بھی ایک عرصہ سے چل رہی ہے لیکن اس کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور مزید اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے جا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے اور روزانہ کئی پروازیں متحدہ عرب امارات سے اسرائیل آتی اور جاتی ہیں۔ دنیا کے حالات بدل رہے ہیں ایسے میں پاکستان میں یہ بحث چھڑنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن اس طرح پاکستان کے شہریوں کا اسرائیل کا سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات جس سطح پر موجود ہیں وہ پاکستان کے ان شہریوں کو پاکستان کے مفادات کے خلاف آسانی کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.