مشک پوری ہائی کنگ ٹریک

139

موسم گرما کی تعطیلات میں بالائی علاقہ جات کی سیر کرنے کو ہر کسی کا جی چاہتا ہے، شو مئی قسمت بہت ہی پیارے عزیز انجینئر شاہد منظور گورایہ نے شہر اقتدار میں فیملی سمیت آنے کی دعوت دے دی، یہ سیر بیٹی اقراء خالد اصغر سے ملاقات کا بہانہ بھی تھی، بھتیجے ڈاکٹر اسامہ اصغر،انس اصغر،عبدالوہاب اصغر، بھانجے عبداللہ،داؤد ا خترمساوی حقوق کی تھیوری پر عمل پیرا بیٹی حرا خالداصغر اور بھانجی تحریم فاطمہ بھی شریک سفر تھے، انکی خواہش کے مطابق پہلا پڑاؤ خان پور ڈیم تھا،یہ تفریحی مقام پیرا گلائیڈنگ اور پیرا سیلنگ کے حوالہ سے خاص شہرت رکھتا ہے۔گذشتہ سال راولپنڈی کے نجی سکول کے بچوں کی کشتی کو یہاں حادثہ پیش آیا ایک خاتون ٹیچر پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوئی تھی اس کے باوجود کسی ایمرجنسی سنٹر کا وہاں کوئی وجود تھا نہ ہی کوئی ہنگامی نمبر کہیں رقم تھا حادثہ سے بچنے کی روایتی ہدایات تحریر تھیں۔سیاحوں کے لئے کہیں بھی ٹھنڈا پانی نہیں تھا، موٹر بائیکر ٹائپ{Jet ski}جو گہرے پانی کی سطح پر تیزرفتاری سے چلتا ہے انکی فٹنس بھی ایک سوالیہ نشان ہے، یہ مقامی اور برینڈیڈ کمپنی کے زیر استعمال ہیں،اس لئے کرایہ کی شرح بھی الگ الگ ہے مگر متعلقہ حکام کے لئے قابل توجہ ہے۔
اس”کانوائے“ کا اگلا انتخاب مشک پوری ہاٹیس ہل تھی،روایت ہے اصل میں یہ لفظ ”مکشپوری“جو سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے اس کے معنی”نجات کی جگہ“ہے، پہاڑوں اور وادیوں سے منسوب دیومالائی داستانوں کی طرح اس جگہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندؤوں کے لئے مقدس ہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ1894 میں مشک پوری ٹاپ پر پانی کے ٹینک بنائے گئے تھے جس سے کوہسار مری اور آس پاس کی آبادیوں کو پانی دیا جاتا تھا۔ اب یہ مشک پوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
2800 میٹر کی بلندی پر یہ مقام نسل نو میں ہا ئیکنگ کے حوالہ سے معروف ہے،اس کا راستہ ڈونگہ اور نتھیاگلی سے بھی جاتا ہے، فی زمانہ کمپیوٹر، ٹی وی،سمارٹ فون نے سب کو دنیا کے ساتھ تو جوڑ دیا
ہے مگر جسمانی اور نفسیاتی طور پر اس کے منفی اثرات ہمارے اجسام پر مرتب ہو رہے ہیں، ہائیکنگ کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ جب بھی موقع ملے ضرور کرنی چاہیے یہ آپ کے اندر منفی خیالات کو ختم کر دیتا ہے، اسِی اُصول کی عمل داری نے ہمیں بھی مجبور کیا کہ اس چوٹی کو سر کیا جائے،خوشی اور خوف کے ملے جلے جذبات ہمیں اسکی چوٹی تک لے گئے مگر چھوٹی بہن حفصہ الماس اصغر ہر لمحہ خوف زدہ رہیں، اس کا ایک سبب وہ ماں بیٹی تھیں جن سے سستانے کے دوران ملاقات ہوئی،ان کا کہنا تھا وہ ہر سال اس مقام پر آتی ہیں، گذشتہ سال ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا،کہ شور مچ گیا شیر آگیا ہے فورا ً وآپس چلے جائیں، ایک دفعہ بارش آگئی تو سارے کپڑے بھیگ گئے۔
یہ علاقہ گلیات اتھارٹی کی حدود میں آتا ہے، اس کا نظم و نسق بھی انکی ذمہ داری ہے، مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں،اس ٹریک پر چلنا سیاحوں کی تو مجبوری ہے، مگر اتھارٹی کو سیاحوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، جہاں سے کچا ٹریک شروع ہوتا ہے وہاں ہر سیاح سے داخلہ ٹکٹ بیس روپے فی کس وصول کی جاتی مگر سہولت ندارد ہے۔
سوشل اور دیگر میڈیا پر نظر آنے والا ٹریک یوں دکھائی دیتا ہے کہ شائد اس سے گاڑی گذر جائے عملاً اسکی چوڑائی دوفٹ سے زیادہ نہیں ہے، اسی پر گھوڑے بھی چلتے ہیں،مری کے بے اعتبار موسم میں اگر بارش ہو جائے تو سیاح کو اللہ کے علاوہ کسی کا سہارا میسر نہیں یہ بہت ہی سلپری ٹریک ہے، نہ ہی کوئی راستہ میں ہٹ موجود ہے، بڑی عمر کے افراد کی ہائیکنگ کے دوران دل کی دھڑکن اگر تیز ہو جائے تو ان کے بیٹھنے کی کوئی مناسب جگہ موجود نہیں ہے۔
گھنے جنگل میں جانوروں کی موجودگی کی بھی شنید ہے،سیاحوں کے تحفظ کے لئے کوئی اہتمام نہیں ہے،اس دوران معلوم ہوا پختہ ٹریک بنایا جارہا ہے مگر یہ چند میٹر تک ہی محدود ہو گا۔سیاحوں کو گھوڑے پر بٹھا کر مشک پوری کی چوٹی تک لے جانے کی سہولت تو میسر ہے،مگر گھوڑے سے سیاحوں کے گرنے کی بھی اطلاع ہے نیز سرکار کے مقرر کردہ نرخوں سے کئی گنا زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے، حتیٰ کہ 100 روپے کے عوض ہائی کنگ Stickدی جاتی ہے۔
جو سیاح اِس پر فضا مقام پر رات کی تاریکی میں کیمپ لگا کر لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں،وہ عدم سہولیات کے باعث شوق کے ہاتھوں مجبور خوف اورڈر کی کیفیت میں ہی یہاں قیام کر سکتے ہیں، بعض جامعات کے طلباء و طالبات سے بر سبیل تذکرہ ملاقات ہوئی، وہ والدین جو اپنی بچیوں کو صرف اِن کے کلاس فیلوز کے ساتھ بھیج دیتے ہیں، انھیں زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے، ہائیکنگ کے دوران ایک طالبہ کا پاؤں پھسل گیا،اس کے کلاس فیلوز نے اسے گہرائی میں گرنے سے بمشکل بچایا، زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ کسی بڑے نیٹ ورک کے سگنل نہیں آتے، ٹر یک پر چلنے کا دورانیہ بلندی کی طرف تین گھنٹے ہے،اونچائی پر رابطہ قریباً منقطع ہو جاتا ہے، اس لئے سرکار پر لازم ہے کہ وہ سگنل کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں متعلقہ اداروں اور لواحقین سے سیاحوں کا رابطہ ممکن ہو سکے۔
لفٹ چیئرکے چکر میں ایوبیہ کا رخ کیا تو یہ جان کر حیرت ہوئی وہ گذشتہ سال سے بند ہے،عقدہ کھلا کہ اسکو اپ گریڈ کیا جانا تھا، تاہم یہ منصوبہ سرکاری اداروں کی باہم مفاداتی جنگ کی نذر ہو چکا ہے، جس کے واضح اثرات سیاحتی کاروبار پر مرتب تھے،کم وبیش یہی معاملہ پتریاٹہ کے تفریحی مقام کا تھا، تاجر برادری کا کہنا تھا کہ ملٹی نیشنل فوڈ چین مذکورہ مقامات پر اپنے بزنس کا آغاز کر نے کی آرزو مند ہیں لیکن لفٹ چیئرکی بندش اِنکی راہ میں اصل رکاوٹ ہے۔یہ معاملہ حکام کی توجہ چاہتا ہے۔
اللہ کے عطا کردہ فطری حسن سے مستفید ہونے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سیاحوں کو تمام تر سہولیات فراہم کرکے دنیا بھر سے ترغیب دے کر سیاحت کو فروغ دیا جائے، تاہم مشک پوری ہایٹس پر جانے والے پانی، چھتری،سٹک اپنے پاس رکھیں نیز زیادہ وزن اور چھوٹے بچوں کو ہر گز ساتھ نہ لے جائیں۔ سورج غروب ہونے سے قبل واپس لوٹ آئیں۔شہر اقتدار کے لیک ویو پارک میں غیر معیاری خورونوش اشیاء کی فروخت متعلقہ اتھارٹی کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔

تبصرے بند ہیں.