فوجی عدالتوں میں ٹرائل: کل آخری دن ، ہمارے پاس وقت کم ہے، مفروضوں پر بات نہ کریں، صرف کیس سے متعلق دلائل دیں: چیف جسٹس کا سلمان اکرم سے مکالمہ
اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد اس مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ اس مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس اعجاز لاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عاٸشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے موکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا، تب تک اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ ایف پی ایل ای اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے؟ انھوں نے ریمارکس دیے کہ ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک آرمی آفیسر کا بھی ملٹری کورٹس میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟
جس پر وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ اگر کسی عدالت میں ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہو گا تو یوں ہو گا۔ ایسے تو کل ملٹری آفسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے متعلقہ بات ہی کریں۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 175 کی شق 3 کو بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جوڑ ریے ہیں۔ اس کا اطلاق تو پھر فوجی عدالتوں پر بھی ہو گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وقت کم ہے۔ انھوں نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ 175 کی شق 3 کا یہاں کیا تعلق ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 شفاف ٹرائل کی دی گئی ضمانتوں کے آرٹیکل 9 اور 10 کے ذریعے مؤثر ہوتی ہے۔
شرخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کوئی عدالتی نظیر دکھا دیں کہ 175 کیسے ملٹری ایکٹ سے منسلک ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک گھڑی ہے جسے ’گرینڈ کمپلکیشن‘ کہتے ہیں۔
انھوں نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ گرینڈ کمپلکیشن نہ بنائیں۔ آپ اپنے دلائل مختصر اور صرف کیس سے متعلق دیں۔
رخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل کے بعد جسٹس عائشہ ملک نے ان سے سوال کیا کہ کیا سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر آپ کا اعتراض 175 تھری کی حد تک ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ یہ جاننا اب ضروری ہے کہ آپ کی سیکشن 2 ڈی پر کیا انڈر سٹینڈنگ ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کا فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا۔ انھوں نے سلمان اکرم سے سوال کیا کہ کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، آپ کی کیا دلیل ہے؟
انھوں نے مزید سوال کیا کہ آپ نے ایکٹ کی شقیں چیلنج کی ہیں اس کی بنیاد کیا ہے؟
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ خود ایک کیس میں طے کر چکی کہ جوڈیشل امور عدلیہ ہی چلا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے دلائل دیے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا آپ ملٹری کورٹس میں فوجیوں کے ٹرائل پر بھی جانا چاہتے ہیں؟ انھوں نے ریمارکس دیے کہ ہم بہت سادہ لوگ ہیں ہمیں آسان الفاظ میں سمجھائیں، آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہمیں یہ بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟
جس پر سلمان اکرم راجہ سے دلائل دیے کہ صرف کسی پر ایک الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ سویلینز کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ سویلین ہیں جو آرمڈ فورسز کو کوئی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ فورسز کو سروسز فراہم کونے والے سویلین ملٹری ڈسپلن کے پابند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرے سویلینز وہ ہیں جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ انھوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جو مکمل طور پو سویلینز ہیں ان کا ٹرائل 175/3 کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔
جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ان سے استفسار کیا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ایسی کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175/3 سے تعلق نہیں۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟
جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف کے سامنے یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہو۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے چیلنج نہیں ہو سکتے؟
جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف کے سامنے یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کہنا کہ ملٹری کورٹس ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح ہو تو کیس کا دائرہ کار وسیع کر دے گا، ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں پر نہیں چل سکتے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ ایک متوازی نظام ہے جسے عدالت نہیں کہہ سکتے؟
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جی میں یہ ہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے۔ آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے۔ سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں نا؟ آپ آرمی افیشل کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کر رہے؟وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ نہیں میں آرمی آفیشلز کے ٹرائل چیلنج نہیں کر رہا۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ امریکی قانون ان عام شہریوں کے بارے میں کیا کہتا ہے جو ریاست کے خلاف ڈٹ جائیں؟جس پر سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ امریکہ میں عام شہریوں کی غیر ریاستی سرگرمیوں پر بھی ٹرائل سول عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ان سے سوال کیا کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو بنیادی حقوق معطل ہو تو کیا پھر سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ امریکہ میں جو سویلین ریاست کے خلاف ہو جائیں ان کا ٹرائل کہاں ہوتا ہے؟ انھوں نے ریمارکس دیے کہ ایسے سویلین کا ٹرائل امریکہ میں عام عدالتیں کرتی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا تھا دنیا میں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوتا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ 21ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں۔ مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔سپریم کورٹ نے سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی ہے۔
تبصرے بند ہیں.