ہم جب پاکستان فلم انڈسٹری کی بات کرتے ہیں تو پورے برصغیر کی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں جانا پڑتا ہے قیام پاکستان کے وقت جہاں انڈسٹری ادارے اور دیگر کاروبار متاثر ہوئے وہیں فلم انڈسٹری بھی بری طرح متاثر ہوئی مسلمان اورپاکستان کے علاقے میں نظریاتی طور پر آنے والے فنکار تو بڑے تھے مگر سازوسامان سمعی بصری معاونات مشنری سٹوڈیوزکا فقدان تھا وسائل اور مسائل نے مل کر مدتوں فلم انڈسٹری کو پروان چڑھنے کی راہ میں رکاوٹ حائل رکھی آواز کی دنیا میں میڈیم نورجہاں نذیر سوڑن لتا فوک گلوکار اداکاروں میں سنتوش،صبیحہ خانم نیئرسلطانہ اور دیگر جہاں دیدہ فنکار اپنے اثاثے چھوڑ کر وطن کی محبت میں چلے آئے…
47ء سے فلم انڈسٹری اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے ابتداء میں بڑے فنکاروں نے کم وسائل کے باوجود اداکاری کے عمدہ معیار کے بل پر اچھی فلمیں دیں جن کا بھرپور میوزک آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے انڈسٹری کی خوش قسمتی میں بہت بڑے موسیقاروں کا ہاتھ ہے خواجہ خورشید انور میوزیکل جینٹس انڈسٹری کو میسر آئے تو ”ہیرا رانجھا“ جیسی لازوال فلم بنی کوئل کا میوزک لازوال ہے یہ گانے کا اسکل دھنوں پر بنے اسی لیے ان کی شہرت کی عمر طویل ہے، ماسٹر عبداللہ ماسٹر عنایت حسین حسن کمال، اختر حسین اکھیاں فیروز نظامی بابا چشتی طافو اور دیگر لازوال فنکاروں کا عروج ایم اشرف سہیل رانا شہریار تک پہنچا آواز کی دنیا کا سفر بھی ناہیداختر، مہناز، سلمیٰ آغا،رونا لیلیٰ تک آیا خوشی کی بات یہ رہی کہ غزل کو فلم میں جگہ ملتی رہی مہدی حسن نے احمد فراز منیر نیازی کی بے پناہ غزلوں کو فلم کا حصہ بنایا بڑے فنکاروں نے بڑے شاعروں کو گایا….
عروج کم وسائل مادی خواہشات اور لگن کی کمی کے باعث زوال میں منتقل ہونا شروع ہو گیا… اس زمانے کو ہم مادی خواہشات سے منسطبق کیے بغیر آگے نہیں چل سکتے کہ یہی وہ دور تھا جب لوگوں نے رشتوں پر ترجیح دیتے ہوئے گھر کے مردوں کو دبئی دیگر صحرائی علاقوں میں کمانے کے لیے بھیج دیا…یعنی زوال کبھی بھی ”اصل“ سے ہٹے بغیر قدروں سے بے پرواہی اور جڑوں کو چھوڑے بغیر نہیں آتا اتک وقت آیا کہ اس ذہنی کم مائیگی نے تنویر نقوی منیر نیازی قتیل شفائی جیسے شاعر فلم سٹوڈیوز سے بھگادیئے عمروں کء ریاضت کرنے والے غزل ٹھمری راگ خیال گانے والے کلاسیکل گھرانے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ گئے انتہائی سریلے فنکار بے سرے نوزائدہ انہی کا چربہ گانے والوں کے ہاتھوں ہارگئے….
جو فنکار چربہ گانا انگریزی لہجے میں منہ بگاڑ کر گانا وہی ہٹ ہو جاتا اور اتنا ہی نہیں اس کی مالی حالت بھی سنور جاتی۔ پھر تو یہ روہی دیمک کی طرح فن کے ہرشعبے میں جاپہنچا آوازتھکی تو زیبا شمیم آرا، محمدعلی، ندیم، نشو کے دلکش چہرے اور عمدہ اداکاری بھی مجرے کرنے والوں کے آگے ہار گئی مجموعی مذاق اتنا گرا کہ تنزلی بھی شرما گئی…
عمومی رویئے میں بھی تبدیلی کو احساس کمتری نے پر لگادیئے اپنی زبان بولنا باعث شرم ٹھہرا اپنا لباس غربت کی نشانی بن پوری کی پوری نئی نسل بدیسی نصاب کے حوالے کر دی گئی اورتوقع یہ کی گئی کہ یہ ماں کے قدموں تلے جنت تلاش کریں گے….
یہ بحث آج تک چل رہی ہے کہ فنکار کا زوال کو ٹھے سے شروع ہو کر سٹیج ڈرامے تک کیسے پہنچا اور دیگر یہ کہ آیا سٹیج اخلاق بگاڑ دیا ہے یا بگڑے ہوئے اخلاق کے باعث سٹیج کا یہ سفر منتج ہوا….
اگر ہم قدیم انڈسٹری فنکار اور عام لوگ دیکھتے ہیں جو کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا انہیں ہو سکتے کہ دونوں ایک دوسرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ پرورش کا عمل باہمی ہے معاشرے کی مادی خواہشات اور دولت کے بل پر کمائی جانے والی عزت نہ صرف فلم کی سکرین پر جھلکے گی شاعر کی شاعرموسیقی غریبوں اور امیروں کے سینما بھی الگ ہو گئے رہائشی علاقے بھی اورلباس وزبان بھی اپنے صوبے اور علاقے کی زبان بولنے والے پسماٹھہرے بڑی سکرین پر نوکروں سے ہمیشہ پنجابی بلوائی جاتی وہی بلکہ ٹھٹھہ مذاق اور توہین وتحقیر کے لیے بھی پنجابی ڈائیلاگزکا سہارا لیا گیا….
جب ہم زوال کی بات کرتے ہیں تو عروج کے اسباب کے ساتھ ساتھ زعال کے مدارج بھی دیکھنے پڑتے ہیں نہ صرف اتنا ہی اسباب کے ساتھ سدباب بھی ضروری ہیں۔
آج مٹی ہوئی دبی ہوئی پرانے پن کے بوجھ سے سرنکالتی فلم انڈسٹری دوبارہ لاہور کے ویران سٹوڈیوز سے کراچی کے سیٹھوں کے پاس چلی گئی ہے پڑھے لکھے لوگ مختلف موضوعات کے تنوع کے ساتھ فلمیں بنانے میں مشغول ہیں… موضوعات کی تیئرنگی اور پڑھے لکھے فنکاروں کے باوجود ماضی کے ادارکاروں والا گلیمر مفقود ہے اس سے مراد ہرگز ڈرامے کے فنکاروں کا دل توڑنا مقصود نہیں مگر جو بھی نئی فلم دیکھنے کی کوشش کریں وہ ٹی وی ڈرامہ ہی لگتی ہے بڑی سکرین اور چھوٹی سکرین کا فرق مٹ نہیں پایا آج کل ڈرامہ اندسٹری کے فنکار ہی فلم میں رقص واداکاری سے ”ستار“بننے کے لیے کوشاں ہیں مگر ایسا ہوتا نظرنہیں آٹا وہ فلمی آوازیں انداز اور چہرے اور پردہ سکرین تک محدود لوگ ہی فلمیں اداکار لگتے ہیں جگہ جگہ پارٹیوں اور اشتہاروں میں خاص کر ”کموڈ“ کی صفائی اور جوؤں کے اشتہار میں کام کرنے والے کل کو جب ہیرو ہیروئن بننا چاہتے ہیں اور فلمی اسٹار کہلانا چاہتے ہیں تو پیسے کے لیے ان کا خود کوسستا کرلینے والا وجود حائل ہو جاتا ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب پہلی مرتبہ زیبا بیگم وحید مراد فردوس اعجاز اور شمیم آرا کو دیکھا تو ان کے محدود رہنے کے عمل نے ان کو اتنا خاص کررکھا تھا کہ عامیانہ پن دور بھاگتا تھا….
اب اداکار اداکار تو لگتے ہیں مگر فلمی اسٹار نہیں لگتے اس کے لیے انہیں اپنی کردار سازی کرناہو گی معاشرے کی سستی لالچ سے نکلنا ہو گا۔خود کو بلند کرنا ہو گا کہ فلم کا دوسرا نام گلیمر ہے خاص ہونا ہے الگ رکھنا ہے ڈائٹنگ شدہ وجود اور جم ٹریننگ والے جم میں جو فرق ہوتا ہے واضع کرنا پڑے گا…..حرف آخر یہ کہ شہرت کا کلیہ بہت عجیب ہے شہرت کے لیے جس قدر سامنے آنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ”چھپنا“ ضروری ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.