معروف شاعر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر عندلیب شادانی کا ایک شعر آج بھی بہت مقبول ہے۔
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
کہیں کہیں تو شادانی صاحب کی بات درست نظر آتی ہے جیسے کہا جاتا ہے گزرا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔ مگر پاکستان کی سیاست میں جو کچھ میں نے دیکھا یا پڑھا یہی پایا کہ تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے۔ پاکستان کے ابتدائی ایام میں چلتے ہیں۔ بانی پاکستان زندہ تھے اسی وقت سے ملک میں سیاسی ریشہ دوانیاں شروع ہو چکی تھیں۔ مغربی پاکستان میں ممدوٹ اور دولتانہ کی سیاسی چپقلش اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ خود جناح صاحب نے ہر گروپ کو بلا کر افہام و تفہیم سے کام لینے کو کہا مگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا مجبورا”انہوں نے گورنر موڈی سے کہا کہ وہ اپنے طور پر ان لوگوں سے نمٹے۔ مشرقی پاکستان میں بھی ایسے ہی کچھ حالات تھے۔ وہاں بھی اے کے فضل حق، سہروردی، عطا الرحمان خان اور مولانا بھاشانی کے مابین اتحاد بنتے اور ٹوٹتے تھے جس سے سیاسی استحکام نہ آسکا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی بیوروکریسی نے نظام پر قابض ہونا شروع کیا۔ وزیر خزانہ غلام محمد نے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سر اٹھانا شروع کیا۔ خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، سہروردی، فیروز خان نون وغیرہ آپس میں لڑتے رہے اور پھر یہ ہوا کہ بیوروکریسی نے اپنی حفاظت کے لئیے فوجی جرنیل کو اپنے ساتھ ملایا۔ پھر تو اس ادارے کو بھی اقتدار کا چسکا لگ گیا۔ ایوب خان کے بعد مارشل لا کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ کبھی اعلانیہ اور کبھی غیر اعلانیہ۔ بے نظیر جب پہلی بار اقتدار میں آئیں تو ان کو ڈکٹیشن لینی پڑی کہ وہ اپنے والد کے پھانسی کے مسئلے کو نہیں اٹھائیں گی اور افغان مسئلے کو نہیں چھیڑیں گی۔
آگے بڑھنے سے پہلے مزید پیچھے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فوج نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اس سوچ پر۔ میں نے نہ صرف اپنے پورے حواس میں مشرقی پاکستان کی سیاست کو قریب سے دیکھا اور شیخ مجیب کی کتاب سمیت مشرقی پاکستان اور ۱۹۷۱کے سانحے پر درجنوں کتابیں پڑھی ہیں اور اب تک پڑھ رہا ہوں۔ میرا مختصر تجزیہ یہ ہے کہ شیخ مجیب نے علیحدگی کے حالات بتدریج پیدا کئے اور ۱۹۷۰ کے انتخابات کے بعد بہت چالاکی کے ساتھ جرنیلوں کو بات چیت میں الجھائے رکھا اور آزادی کا پلاٹ تیار کرتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک زیرک سیاستداں تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کے مستقبل کو بھانپ لیا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یحییٰ خان کو اپنی مٹھی میں لیا۔ مغربی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کر کے انہوں نے سخت رویہ اپنایا۔ ایسا لگتا ہے کہ پچیس مارچ سے پہلے مجیب اور بھٹو میں اس بات پر غیر اعلانیہ اتفاق ہو گیا تھا کہ دونوں حصے الگ ہو
جائیں۔ تاکہ دونوں وزیر اعظم بن سکیں۔ شیخ مجیب با با ئے بنگلہ دیش بھی بننا چاہتا تھا اسی لئیے ۱۹۶۲میں ہی اس نے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو ایک خط لکھا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہتا ہے جس کے لئے بھارت اس کی مدد کرے (بھارتی ڈپلومیٹ ساشانکا بینر جی کی کتاب میں یہ لکھا ہوا ہے جس نے یہ خط بھارت بھجوایا تھا)۔اس وقت فوج کو استعمال کیا گیا اور یحییٰ خان متفقہ صدر بننے کی خواہش میں وہی کرتے گئے جو بھٹو اور مجیب چاہتے تھے۔ اس لحاظ سے فوجی جرنیلوں نے دونوں سیاستدانوں کا کام آسان کر دیا۔ اگر یہ کرنا بھی تھا تو پر امن طریقے سے کر لیا جاتا تو اتنا خون خرابہ نہ ہوتا۔ فوج کو مشتعل کرنے کے لئے شیخ مجیب نے نہ صرف غیر بنگالیوں کے قتل عام کا بازار گرم کر دیا بلکہ بغاوت بھی کردی جس سے پاکستانی ریاست کی رٹ صرف چھاؤنی تک ہو کر رہ گئی۔ اسی کی بنیاد پر فوج نے آپریشن شروع کردیا جو علیحدگی کو یقینی بنا گیا۔ یہی بھٹو اور مجیب چاہتے بھی تھے۔ خیر یہ ایک بہت طویل موضوع ہے جس پر میں کتاب بھی لکھ رہا ہوں۔ آئیے آگے بڑھئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جب قبل از وقت انتخابات کروائے تو اس میں چند نشستوں پر دھاندلی ہوئی اور نو جماعتی اتحاد نے زبردست احتجاجی تحریک شروع کردی۔ پورا ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں تھا لیکن سب سے اچھی بات یہ تھی کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت مسلسل جاری رہی۔ بھٹو نئے سرے سے انتخابات پر راضی بھی ہو گئے تھے اور معاہدہ بھی طے پا گیا تھا۔ یہ باتیں پروفیسر عبدالغفور اور مولانا کوثر نیازی کی کتابوں میں بھی ہے۔ مگر عین وقت پر اپوزیشن کے ایک اہم رہنما اصغر خان نے خط لکھ کر فوج کو مداخلت کی اپیل کردی اور مارشل لا لگ گیا۔ اس بار بھی ملک کو تباہی کی طرف سیاستدانوں ہی نے دھکیلا۔ بعد میں جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی جماعتیں فوجی حکومت کا حصہ بھی بنیں۔
مزید آگے چلئے۔ بے نظیر کی حکومت کو گرانے کے لئے اس وقت کی فوج نے عدم اعتماد کی فضا قائم کی اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنائی گئی جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ ساری جماعتیں اکٹھی ہو گئیں۔ اور آئی جے آئی کے تحت الیکشن میں حصہ لیا اور اس کے لئے جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی نے اپوزیشن جماعتوں کو مالی مدد بھی کی اس کا اعتراف جنرل حمید گل اور جنرل درانی نے کھلے عام کیا۔ میاں نواز شریف نے کس طرح سیاست میں قدم رکھا سب کو معلوم ہے۔ جنرل مشرف کو لائے بھی خود ہی مگر اختلافات کے باعث ان کو بے عزت کرکے نکالنے کی ایک طرح سے سازش کی اور خود اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جب زرداری کی حکومت آئی تو پہلے سال سے ہی اس کے پیچھے پڑ گئے۔ اقتدار سے نکال باہر کرنے کے لئے اس وقت کے فوجی جنرل کے پلان کے مطابق میمو گیٹ کے مقدمے کا حصہ بنے اور کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچ گئے۔ پھر ۲۰۱۳آیا۔ عمران خان نے دھرنا دیا، جو کامیاب نہ ہو سکا۔ بعد میں ۲۰۱۸کے انتخابات میں وہ بھی فوج کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے۔ جس طرح آئے تھے ویسے ہی اقتدار سے ہٹائے گئے۔ اس بار آلہ کار پھر میاں نواز شریف بنے۔ اگر وہ پیشکش قبول نہ کرتے تو عمران حکومت ختم نہ ہوتی اور ایک سال کے اندر معیشت تباہ ہونی تھی۔ مگر پیشکش پر ایسی لالچ آئی کہ برداشت نہ کر سکے اور اقتدار سے چپک گئے۔ ناکامیاں ہی ناکامیاں اب تک اس اتحادی حکومت کے قدم چوم رہی ہے۔ انتخابات سے بچنے کے لئے کیا کیا ڈھونگ نہ رچایا گیا۔ اب پی ڈی ایم نے پھر فوج کا سہارا لیا اور ان کو بدنام کروا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف سے جان چھڑانے کے لئیے پی ڈی ایم نے فوج اور تحریک انصاف کو آمنے سامنے لا کھڑا کردیا ہے۔ عدلیہ کو بھی بے توقیر کیا۔ یعنی اس وقت ملک کے تینوں ستون یعنی مقننہ، عدلیہ اور حکومت تینوں جھگڑے کے فریق بنے ہوئے ہیں۔ اگر ۱۹۷۱میں چلے جائیں تو لگتا ہے عمران خان شیخ مجیب بنے ہوئے ہیں۔ وہ بھی مادر پدر آزاد ہو کر فوج کو برا بھلا کہتے آئے ہیں۔ صرف اقتدار حاصل کرنے کیلئے پہلے فوج سے کشیدگی مول لی اب ان کی حمایت حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم اپنی مضبوط اپوزیشن پارٹی کو فوج کے ذریعے کچلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ۹ مئی کے واقعہ پر انتظامی ایکشن نہیں لیا گیا اور نہ ایسا ارادہ نظر آرہا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ملزموں کو کٹہرے میں لایا جائے مگر اس کی تحقیق بھی تو ہونی چاہئیے کہ اتنے شہروں اور اتنے سرکاری املاک پر حملے ہوئے، پولیس اور رینجرز کہاں رہیں؟
فوج اب سیاستدانوں کی سازشوں سے اپنے آپ کو دور رکھے اور اس کی تحقیقات کرے کہ کس کس نے فوج کو بدنام کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کی۔ چاہے وہ عمران خان ہو جو نیوٹرل کہہ کر برا بھلا کہتے رہے چاہے وہ خواجہ آصف ہوں جو اسمبلی میں تقریر میں اپنی ہی فوج کو کھلے بندوں بدنام کرتے رہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ چاہے وہ نواز شریف ہوں جنہوں نے گجرانوالہ جلسے میں آن لائین تقریر کرتے ہوئے آرمی چیف کا نام لیتے رہے اور چاہے وہ زرداری ہوں جنہوں نے جنرل راحیل شریف کو مخاطب کر کے جلسے میں کہا کہ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اسی طرح مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن کو توڑ کر ق بنائی گئی۔ پی پی کو توڑ کر پیٹریاٹ بنائی گئی۔ پھر ایم کیو ایم کو توڑ کر پی ایس پی بنائی گئی۔ رات منتخب اراکین پکڑے جاتے تھے صبح وہ پی ایس پی میں جا ملتے تھے۔ ان کے باڈی لینگویج بتاتی تھی کہ وہ جبر میں ہیں۔ آج بھی بچہ بچہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اکثریت منہ بنا کر روتی صورتوں کے ساتھ جہانگیر ترین کے پاس جارہی ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.