عجب بات ہے، انسان زمین اور آسمان کے حصار توڑ کر نکلتا چاہتا ہے لیکن کسی سلطان کی ہمراہی قبول کرنا پسند نہیں کرتا۔ در آن حالے کہ سلطان ہی کے پاس وہ قوت ہے جو اقطار ااسماوات والارض سے نکل جانے کی قدرت بہم پہنچاتی ہے۔ اپنے وقت کا سلطان کسی اور کے وقت کی ڈور تھام سکتا ہے۔ سلطانِ وقت ہی وقت پر قدرت رکھتا ہے۔ وقت کے زیرِ اثر، وقت کے تقاضوں کے تحت بسر کرنے والوں کا تخت عارضی ہے، وہ اور ان کی سلطنت فنا کی زد میں ہیں، ان کی قوت عارئتی ہے، وہ صبح شام گردشِ ایام کی زد میں ہے۔ مرکز سے دور رہنے والوں کے ہاں گردش بھی تیز ہے، مرکز کی قربت میں یہ گردش آہستہ ہو جاتی ہے، اور مرکز سے واصل ہونے والوں کے لیے گردشِ ایام تھم جاتی ہے۔
اگر انسان بقدرِ ہمت کسی سلطانِ وقت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے سکے تو اس باب میں اس کی دست گیری ممکن ہے۔ ہاتھ میں ہاتھ دینے سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد تبادلہِ افکار ہے؟ محض کسی نظریے سے اتفاق ہے؟ کیا اس سے مراد اس حد تک واہ واہ ہے جس حد تک بات سمجھ میں آجائے۔ یا پھر اپنی سمجھ بوجھ کو ایک بوجھ سمجھتے ہوئے اسے طاقِ نسیاں میں رکھتے ہوئے اور اپنے سلطان کی بصیرت سے اپنی بصارت کو تیز کرنا ہے؟ انسان اپنی نظر سے دیکھے تو اس کی راہ میں بینائی حائل ہو جاتی ہے۔ کسی دیدہ ور کی دست گیری حاصل ہو جائے تو وہ اپنے راستے میں اپنے ہی ہاتھوں کے کھودے ہوئے گڑھوں میں گرنے سے بچ جاتا ہے۔ دست گیری کی تمنا ہو تو دستیاب ہونا پڑتا ہے۔ کسی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینا ہوتا ہے۔ ہاتھ قدرت کا استعارہ ہے۔ یہ قدرت ذہنی بھی ہو سکتی ہے اور قلبی بھی! یہاں اپنی قدرت کو کسی اور ذات کی قدرت کے تابع کرنے کی ہمت درکار ہوتی ہے۔ ہمت ایک روحانی استعداد ہے۔ سبب اور نتیجے کی دنیا میں رہنے والا اس استعداد سے محروم ہوتا ہے۔ انسان کا انسان پراعتماد کرنا بھی ایک روحانی عمل ہے۔ جسموں کی سطح پر بسر کرنے والا فقط مزاج اور مفاد کے اشتراک کی بنیاد پر تعلق استوار کرتا ہے۔ مزاج غرور کی زد میں ہوتا
ہے اور مفاد حالات کی زد میں۔ سو دونوں بنیادیں دم بھر میں زمیں بوس ہو جاتی ہیں۔ بربنائے لاالٰہ قائم ہونے والا تعلق ہی قیام میں ہے۔ فقط اللہ کے لیے تعلق قائم کیا جائے تو اسے ہی دوام ہے۔
مزاج اور مفاد کی دنیا میں بسر کرنے والا دوسرے انسانوں کے ساتھ اعتبار اور اعتماد کی پھوار میں بھیگ نہیں پاتا۔ اس کا دل بھیگتا ہے، نہ اس کی آنکھ! ایسی خشک چشم کو کور چشم کہا جاتا ہے، ایسے قلب کو اشد من القسوۃ، پتھر سے بھی سخت کہا جاتا ہے۔ اپنے ہی مفاد کی دنیا میں مگن رہنے والا خدا کی بنائی ہوئی دنیا کا نظارہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ مفاد پرست خود غرض ہوتا ہے اور خودغرض تنہا رہ جاتا ہے۔
کسی کے اختیار میں جھانکنا اپنا اختیار ترک کیے بغیر جانچنا ممکن نہیں ہوتا۔ کوئی کتنا بڑا سلطان ہے، اپنی سلطنت کو تج کیے بغیر آنا ممکن نہیں۔ راز تو یہ ہے کہ اس دنیا سے باہر نکلنے کے اتنے ہی راستے موجود ہیں جتنے انسان۔ بس ایک شرط کے ساتھ کہ وہ انسان خود منفی ہو جائے۔ کہ انسان اپنے راستے میں خود ہی حائل ہو جاتا ہے۔ جب وہ خود اپنے راستے سے ہٹ جاتا ہے تو اسے وہ انسان نظر آنے لگتا ہے جس کی دست گیری سے وہ حصارِ وقت سے باہر نکل سکتا ہے۔
مزاج کا غرور کے ساتھ اور مفاد کا وقت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ وہ انسان اپنے مزاج کی شاکلہ سے باہر نہیں نکل سکتا جو غرور سے توبہ نہ کر لے۔ اپنے مزاج کی حدود سے باہر نکلنا اسی کے شایانِ شان ہے جو زمین پر عجز وانکسار سے ہولے ہولے چلتا ہے۔ زمین سے نکلنے والے اور زمین میں واپس جانے والے وجود کے لائق غرور ہے نہ غصہ۔ غصہ اور غرور آگ ہے، شعلہ نار ہے، اور نار جھکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ نار سے نکلے ہوئے فی النار ہوئے۔ جسے نار چھو جائے وہ بھی اپنے حواس میں نہیں رہتا۔ اس کی جون بدل جاتی ہے۔ ابنائے آدم سے اس کا تعلق مشکوک ہو جاتا ہے۔وہ نْور کی طرف جانے والوں کا غیر ٹھہرتا ہے۔
یہی حال مفاد کا ہے۔ مفاد پرست اپنے مفاد کی دنیا تک محدود رہتا ہے۔مفادات کی فہرست میں آسائش و آرائش سے لیکر لذتِ کام و دہن کی آلائش تک سب کچھ شامل ہے۔ بعض اوقات تمنائے ستائش بھی مفادات کے ضمیمے میں سرِ فہرست ہوتی ہے۔ مفادات کی دوڑ میں حواس کی دنیا میں رہنے والا بدحواس ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے مفاد کے تعاقب میں اس قدر تیز بھاگتا ہے کہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جاتا ہے۔ یہ ساتھی اس کی سنگت کا خمیر ہوتے ہیں۔ اسی خمیر سے اس کی فکر نے جنم لیا ہوتا ہے لیکن وہ اپنی جنم بھومی کو بھول جاتا ہے۔ امیری کے شوق میں غریب الدیار ہو جاتا ہے۔ سنگت سے وچھوڑا اسے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ وہ ایسے حلقوں میں جگہ ڈھونڈتا ہے جہاں وہ سرتاپا نووارد ہوتا ہے۔ اس رہ نوردِ "شوق” کو اجنبی حلقوں میں پذیرائی کے لیے مسلسل اداکاری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس کے اعصاب تڑخنے لگتے ہیں۔ وہ پہلے بدحواس ہوتا ہے۔ پھر مخبوط الحواس! اصل سے بھاگنے والا وصل نہیں بلکہ فصل تک پہنچتا ہے۔
اخلاص مزاج اور مفاد کی نفی کا نام ہے۔ اخلاص جائے توحید ہے۔ یکتا ہونے والے کو یکتائی ملے گی۔ دوئی باہر کھڑی دہائی دیتی رہ جائے گی۔ بندۂ اخلاص کے لیے وقت سمٹ جاتا ہے۔ وقت کی طنابیں اس کے انتظار میں کھینچ لی جاتی ہیں۔ اخلاص ہر خواہش سے خلاصی حاصل کیے ہوئے ہے۔ مادی دنیا کی طلب خواہش ہے اور غیر مادی دنیا کی طلب تمنا کے نام سے جانی جاتی ہے۔ دونوں جہانوں سے بے نیاز ہونا فقط اخلاص کی ہمت ہے۔ یہ ہمتِ مردانہ شاید خود شناسی کے بغیر نہیں آتی۔ خود شناس خود کو خود ہی اپنے راستے سے ہٹا لیتا ہے۔ خود کو خود ہی برطرف کر دیا جائے تو خدا ہرطرف ہے۔ خودی سے مراد خود شناسی ہے اور خودی کو بلند کرنے سے مراد خود شناسی کے بلند مقام تک پہنچنا ہے۔ تقدیر زمان اور مکان کی ڈوریوں میں گرہیں لگانے اور کھولنے کا خدائی عمل ہے۔تقدیر وقت اور واقعات کے درمیان بندھن قائم کرتی ہے۔ تقدیر کو قضا کہیں اور قضا پر راضی رہنے کے عمل کو رضا کہیں تو راضی بہ قضا بندے اور خدا کے درمیان بزبانِ اقبالؒ یہ دلچسپ مکالمہ ہو سکتا ہے۔ "پہلے آپ، پہلے آپ!!”
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ ہر بندہ اپنی لوحِ تقدیر خود نہیں لکھ سکتا۔ حصارِ وقت سے نکالنے والا سلطانِ وقت طالبِ حق کو سلطانِ زمانہ کے روبرو کرتا ہے۔ وہ ذاتِ گرامی جو خود لوح بھی ہے اور قلم بھی، وہ اپنے طالبین و مصاحبین کو تقدیر کا محتاج کیونکر رہنے دے گی!!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.