ڈینگی کا دوسرا حملہ زیادہ خطرناک ہے

100

ڈینگی صحت عامہ کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی کو ڈینگی کا حملہ ہونے کا امکان ہے۔ ہر سال 49 کروڑ افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں جس میں سے تقریباً 9کروڑ 60لاکھ افراد کو علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 5 لاکھ افراد ڈینگی کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے 2.5 فیصد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر دو گھنٹہ میں تین افراد کی موت ڈینگی کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔
ڈینگی کا مرض دنیا کے 129 ممالک میں پایا جاتا ہے اور اس کے 70 فیصد کیسز ایشیائی ممالک میں دیکھے جاتے ہیں۔ 1990ء سے 2019ء تک ڈینگی کیسز میں 85فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ اضافہ اسی طرح جاری رہا تو 2080ء تک دنیا کی 60فیصد آبادی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ڈینگی کے زیادہ تر مریض رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے اس لئے کہ بہت سارے مریضوں میں علامات نہیں ہوتیں یا بہت کم ہوتی ہیں۔ ڈینگی سے بچاؤ کے لئے بہترین طریقہ مچھروں کی افزائش میں کمی اور ان کی تعداد کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ فی الحال ڈینگی کا کوئی خاطرخواہ علاج موجود نہیں لیکن ڈینگی ہونے کی صورت میں اپنے معالج سے رابطہ کرنا اور ہسپتال میں علاج معالجہ شروع کرنا زندگی بچانے کے لئے اہم ہو سکتا ہے۔
ڈینگی کے بارے میں بہت ساری باتیں کی جا چکی ہیں لیکن سب سے اہم یہ کہ ڈینگی کا دوسرا یا تیسرا حملہ زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ عمومی طور پر ڈینگی کا پہلا حملہ معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور خاص طور پر بچوں اور جوانوں میں ہلکا سا بخار، نزلہ، آنکھوں میں درد، کمر میں درد دیکھا جاتا ہے۔ 3 یا 5 دن بیمار رہنے کے بعد مریض ٹھیک ہو جاتا ہے اور عمومی طور پر طبیعت اتنی خراب بھی نہیں ہوتی کہ بہت علاج معالجے کی ضرورت پڑے۔ کئی مرتبہ تو ڈینگی کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا اور مریض کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا کہ یہ نزلہ زکام نہیں بلکہ ڈینگی بخار ہے۔ جب ڈینگی کا حملہ دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ ہو تو اس کے بعد یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ انسان کے جسم میں پائے جانے والے خون کے سفید جیسیموں جن کو T سیل کہا جاتا ہے، وہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا ان میں خطرناک تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے دوسرا یا تیسرا حملہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسرا یا تیسرا حملہ سادہ ڈینگی بخار نہیں ہوتا بلکہ اس میں جسم کے مختلف حصوں سے خون بہہ سکتا ہے۔ یہ خون جسم سے باہر نکسیر کی صورت میں یا پیشاب یا پاخانے کے ذریعے بھی آ سکتا ہے یا بسااوقات جسم کے اندرونی حصوں جیسے دماغ یا پھیپھڑوں میں خون جمع ہو سکتا ہے۔ اسے سادہ ڈینگی بخار نہیں بلکہ Dengue Hemorrhagic بخار کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جب ڈینگی کا دوسرا حملہ ہو تو انسان کا دفاعی نظام اس سے لڑتا ہے لیکن جسم کا اپنا نقصان کر دیتا ہے۔ ڈینگی دنیا بھر میں 5 سیروٹائپس میں دیکھا جاتا ہے جس کو DENV-1، DENV-2، DENV-3 اور DENV-5 کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اگر کسی ایک وائرس کی وجہ سے ڈینگی بخار ہو جائے تو ساری عمر اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہو جاتی ہے اور آٹھ سے نو مہینے تک باقی 4 اقسام کے ڈینگی وائرس سے بھی جسم مدافعت پیدا کر لیتا ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے تو باقی قسم کے سیروٹائپ کے خلاف مدافعت کم ہونا
شروع ہو جاتی ہے اس لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی شہر یا ملک میں کون سا سیروٹائپ حملہ آور ہو رہا ہے۔ پاکستان کی بات کر لیں تو جو چند سال میں ڈینگی کا حملہ ہوا اس میں زیادہ تر سیروٹائپ III دیکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند سال سے پاکستان کے لاکھوں افراد اس وائرس کا حملہ ہونے کے بعد خودبخود ٹھیک ہو چکے ہیں اور ان کے جسم میں ساری عمر کے لئے اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک خطے میں بار بار ایک ہی قسم کا وائرس حملہ آور ہو تو مرض کی شدت میں آہستہ آہستہ کمی ہو جاتی ہے اور ہر گزرتے سال کے ساتھ کم تعداد میں لوگ اس میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن ایسی صورت حال میں ہمیں ڈینگی کے حوالے سے سرولنس کرنا، ایک خطے سے دوسرے خطے میں ڈینگی کی نقل وحمل کو روکنا اور ایئرپورٹس، ریلوے سٹیشن اور دیگر بین الاقوامی سفر کے دوران مسافروں کو سکریننگ کرنا خصوصی طور پر ایسے ممالک سے آنے والے مسافروں کو جہاں ڈینگی وائرس بہت زیادہ دیکھا جا رہا ہو بہت زیادہ ضروری ہے، خصوصی طور پر ایسے ممالک جہاں ڈینگی کی سیروٹائپ تین کے علاوہ کوئی اور سیروٹائپ دیکھی جا رہی ہو اس لئے کہ یہ وائرس اگر بین الاقوامی سفر کے دوران ایک ملک یا ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں منتقل ہو جائے تو ایک نئی قسم کا سیروٹائپ حملہ آور ہو سکتا ہے اور اگر یہ سیروٹائپ پچھلے سے مختلف ہو تو ایک مرتبہ پھر ڈینگی وبائی شکل اختیار کرتا ہے اور اس سے ہونے والی اموات میں شدید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ڈینگی وائرس حاملہ ماں سے بچوں میں بھی منتقل ہو سکتا ہے اور کئی مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نوزائیدہ بچوں میں ہونے والا ڈینگی بخار کا پہلا حملہ بھی جان لیوا ثابت ہو جاتا ہے۔ محکمہ صحت میں کام کرنے والے افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ڈینگی کے حقائق کے بارے میں آگاہ کریں اور ہمیں ایسے افراد کی لسٹیں تیار کرنی چاہئیں جنہیں پچھلے چند سال میں ڈینگی کا حملہ ہوا ہے۔ اس لئے کہ عام افراد کی نسبت ایسے لوگوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد جن کے گھروں میں کوئی ڈینگی کا مریض رہا ہو انہیں چاہئے کہ وہ گھروں کی صفائی کرائیں، کمروں کے اندر رکھا ہوا فرنیچر نکال کر الماریوں کے نیچے اور کھڑکیوں کے پردوں کے ساتھ ساتھ کاٹھ کباڑ نکال کر ان کو اچھی طرح صاف کریں۔ اس مرض کو پھیلانے والا ڈینگی وائرس صاف پانی میں پلنے کے بعد عمومی طور پر گھروں کے اندر رہنا پسند کرتا ہے اور پردوں کے پیچھے، الماریوں، کھڑکیوں اور بیڈ کے نیچے اپنا مسکن بنا لیتا ہے۔ جیسے ہی کوئی بندہ گھر میں بستر پر یا کرسی پر بیٹھتا ہے تو یہ مچھر چپکے سے آ کے اس کے پیروں پر کاٹ لیتا ہے اور اگر اس کے جسم میں وائرس موجود ہو تو یہ اس شخص میں وائرس منتقل کر دیتا ہے اور کچھ عرصے بعد وہ شخص ڈینگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ڈینگی کا مریض ایک گھر میں ایک شخص سے دوسرے شخص تک صرف اور صرف مچھر کے کاٹنے سے ہی پھیلتا ہے۔ جب یہ مچھر کسی ڈینگی کے مریض کو کاٹ لے جس کے جسم میں ڈینگی وائرس پھیل رہا ہو تو یہ وائرس جسم میں پانچ سے سات دن میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اور اس کے بعد مچھر اس قابل ہوتا ہے کہ یہ کسی اور نارمل شخص کو ڈینگی کا وائرس منتقل کر دے۔ یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ مچھر جب انسانی خون سے خوراک حاصل کرتا ہے تو یہ بہت زیادہ خون چوس لیتا ہے جس کی وجہ سے مچھر کا وزن بڑھ جاتا ہے اور یہ عمومی طور پر بہت بھاری ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی اڑان نیچی ہوتی ہے اور یہ سو میٹر سے زیادہ اڑ نہیں سکتا اور اتنے ہی گھیرے میں یہ اپنی اڑان کرتا ہے۔ بھاری ہونے کی وجہ سے زیادہ اونچا نہیں اڑتا اسی لئے یہ بستر کے نیچے، الماریوں کے نیچے یا کھڑکیوں کے پردوں کے پیچھے جا کے چھپ جاتا ہے اور جب کوئی شخص جرابوں کے بغیر چل رہا ہو یا بیٹھا ہو تو یہ اس کے پیروں یا ٹخنوں پر کاٹتا ہے اور اگر اس کے جسم میں وائرس ہو تو یہ اس کے اندر وائرس کو منتقل کر دیتا ہے۔ ویسے تو ڈینگی مچھر جسم کے کسی بھی حصے پر کاٹ سکتا ہے لیکن سب سے زیادہ یہ مچھر ٹخنوں،۔ کہنیوں یا گردن یا بازوؤں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کا خاص وقت علیٰ الصباح یا شام ہے جس کو Dusk Down کہا جاتا ہے۔ آج کل جب ڈینگی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے تو ہمیں چاہئے کہ جرابوں کا استعمال کریں اور گردن اور سر کو ڈھانپ کر رکھیں اور علیٰ الصباح اور غروب آفتاب کے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں اور کمروں میں بیٹھتے ہوئے پاؤں نیچے لٹکا کر نہ بیٹھیں یا جرابیں پہن کر رکھیں۔ ایسا کرنے سے ڈینگی کا مچھر حملہ نہیں کر سکے گا اور مرض کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہو گی۔ ویسے تو ڈینگی مچھر کے جسم میں اگر یہ وائرس آ جائے تو ساری عمر اس کے جسم میں رہتا ہے اور پہلے پانچ یا سات دن کے بعد یہ کسی انسان کو کاٹے تو یہ اس کے جسم میں یہ وائرس منتقل کر دیتا ہے یہاں تک کہ جب یہ مچھر انڈے دینے لگتا ہے تو یہ وائرس اس کے انڈوں میں بھی منتقل ہو جاتا ہے اور ان انڈوں سے جتنے مچھر پیدا ہوتے ہیں ان کے جسم میں بھی یہ وائرس ہوتا ہے لیکن حیرت یہ ہے کہ اس طرح سے منتقل ہونے والا وائرس انسانوں میں ڈینگی نہیں پھیلا سکتا بلکہ ڈینگی پھیلانے کے لئے اسے ایک مرتبہ پھر کسی ڈینگی کسی مریض کا خون چوسنا ضروری ہے تاکہ وہ وائرس کو اپنے جسم میں منتقل کر سکے۔ اللہ کی طرف سے یہ کام بھی انسانوں کے لئے بہترہے کہ ڈینگی کا وائرس جب تک مچھر میں پانچ سے سات دن نشوونما نہ پائے تب تک یہ ڈینگی پھیلانے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ وہ دورانیہ ہے جس دوران یہ مچھر خطرناک نہیں ہوتا۔ آج کل کے موسم میں گھروں میں ڈینگی کا ایک سے دو مرتبہ IRS سپرے کرنا، اس سپرے کے دوران مچھر مار ادویات دیواروں، چھتوں، کونوں، بستر کے نیچے سپرے کر دی جاتی ہے اور IRS سپرے کرنے کے کئی دن بعد تک یہ کیمیکل ان جگہوں پر جمع رہتا ہے۔ جب بھی کوئی مچھر دیوار، فرش، کونے کھدروں، الماریوں، بستر کے نیچے جا کے ان کیمیکل زدہ سطحوں پر بیٹھتا ہے تو اس کی موت ہو جاتی ہے اور اس کے جسم میں جو ڈینگی موجود ہے، بھی ختم ہو جاتا ہے۔ عمومی طور پر ڈینگی کے موسم میں تمام گھروں میں مچھر مار سپرے، کوائل، مچھر مار لیکوڈ کا استعمال ضروری ہے لیکن ایسے گھر جن میں پچھلے سال ڈینگی کا حملہ ہو چکا ہو یا اس وقت بھی کوئی مریض ڈینگی سے متاثر ہو انہیں چاہئے کہ وہ مچھر مار سپرے کریں اور ایسے گھر جس میں ڈینگی کا مریض اب بھی موجود ہو۔
ڈینگی کے پھیلاؤ کی اصل وجہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے اور خاص طور پر شہری علاقوں میں۔ شہری علاقوں میں لوگ گھروں کے آس پاس پانی اکٹھا کر لیتے ہیں جس میں ڈینگی کا مچھر بآسانی نشوونما پاتا ہے۔ کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ڈینگی پھیلنے کے لئے بہت بڑی مقدار میں پانی کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.