کاپ 28 کے چیلنجز اور یو اے ای
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
علامہ اقبال کا یہ شعر ایک آفاقی و انقلابی نصیحت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک کی عزت نفس مجروح نہ ہونے پائے۔ مسلم نشاۃِ ثانیہ کا اقبالی خواب پورا ہوجائے اور انسانیت کے اُمتِ واحدہ ہونے کی تمنائے ربانی پوری ہوجائے۔ اس مقصد عظیم کے حصول کے لئے پاکستان اورمتحدہ عرب امارات شانہ بشانہ ہیں۔ اس کی ایک نہیں، کئی مثالیں دنیا کے سامنے آئی ہیں۔ جب متحدہ عرب امارت ایک ہمدرد بھائی کی حیثیت سے مشکل ترین حالات میں پاکستان کی مدد کو آیا اور ہمارا ہاتھ پکڑا۔
اس میں کیا شک ہے کہ لمحہ موجود میں پاکستان کو شدید معاشی مشکلات کا سامنے ہے۔ ان حالات میں متحدہ عرب امارات کے صدر جناب محمد بن زید النہیان اپنے بھائی کی مدد کو پہنچ آئے۔ انہوں نے پاکستان کے 2 ارب ڈالر کے قرض کو رول اوور کرنے اور ایک ارب ڈالر اضافی قرض دینے کا اعلان کر کے پاکستانیوں کے دل جیتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف سے ابوظبی میں ملاقات میں انہوں نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ دنیا میں پاکستان کو لیڈر کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ جناب محمد بن زید النہیان نے پاکستان اور یو اے ای کے درمیان تاریخی تعلقات اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی برادری کی گرانقدر خدمات کی تعریف بھی کی۔ متحدہ عرب امارات پاکستان میں گیس، توانائی، صحت، بائیوٹیکنالوجی اور ای کامرس کے شعبوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ زرعی ٹیکنالوجی اور لاجسٹکس کے شعبے بھی اس میں شامل ہیں۔
دراصل پاکستان اور یو اے ای کے درمیان محبت، بھائی چارے اور دوستی کا یہ رشتہ برسوں پر محیط ہے۔ ان باہمی تعلقات کے لئے ریاست امارات کے بانی عزت مآب مرحوم شیخ زید بن سلطان النہیان کی خدمات کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں بلند مقام عطا کرے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ متحدہ عرب امارات نے شیخ النہیان کی ولولہ انگیز قیادت میں بے حد ترقی کی جس کی پوری دنیا معترف ہے۔ متحدہ عرب امارات کے اس مثالی حکمران نے ترقی کے جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ اُن کے جانشینوں کی قیادت میں مسلسل جاری ہے۔ آج صحرا پر بھی خوبصورت نخلستان کا گمان ہوتا ہے۔ پاکستان نے بھی اپنے برادر اور دوست ملک کی ترقی میں بھرپور اور قابل تحسین کردار ادا کیا۔ متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی میں پاکستانی مزدوروں، محنت کشوں اور ماہرین کا خون پسینہ شامل رہا ہے۔ یہ تعاون دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔
1971 میں متحدہ عرب امارات کے قیام کے بعد پاکستان پہلا ملک تھا جس نے اسے آگے بڑھ کر نہایت پرجوش انداز میں نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ اس کی جانب دست تعاون بھی دراز کیا تھا۔ اُس وقت سے آج تک پاکستان نے دوستی کے اس رشتے کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اسے وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوشش کی ہے۔
دونوں ممالک میں تاریخی، ثقافتی اور معاشی رشتے قائم ہیں۔ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان برادرانہ تعلق کی ایک مثال کراچی میں متحدہ عرب امارات كے قونصل جنرل بخیت عتیق الرومیتی ہیں جن کا کردار مثالی اور پاکستانی کمونٹی کے لئے اُن کی سماجی خدمات قابل رشک و قابل تعریف ہیں۔
سن 2000 میں میں بطور سفارتکار پاکستان میں تعیناتی کے بعد اُن کے دل میں پاکستانیوں سے ایسی محبت اور انسیت پیدا ہوئی کہ وہ ہمارے کونے کونے میں ہر دکھی انسان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ 1970 میں دبئی میں پیدا ہونے والے بخیت عتیق الرومیتی ایسے ممتاز سفارتکار کے طور پر جانے جاتے ہیں جو ناگہانی آفات کے دوران پاکستانیوں کی مدد میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ سیلاب اور زلزلے جیسی ناگہانی آفات اور کورونا کے دوران بھی انہوں نے بڑھ چڑھ کر پاکستانیوں کی مدد کی۔ سندھ اور بلوچستان کے حالیہ سیلاب میں تو انہوں نے خدمت کی نئی مثالیں قائم کیں۔ پانی میں گھرے افراد کی مدد کے لئے یو اے ای ہلال احمر، شارجہ چیرٹی، شیخ خلیفہ فاؤنڈیشن، یو اے ای کی غیر سرکاری تنظیموں کو متحرک کیا۔ راشن، خیمے اور دیگر ضروریات زندگی احسن انداز میں متاثرین تک پہنچائیں۔ وہ رمضان المبارک کے دوران بھی چین سے نہیں بیٹھتے۔ ماہ مقدس میں اُن کی قیادت میں ٹیمیں غریب اور مستحق افراد میں کھانا اور پینے کا صاف پانی پہنچاتی ہیں۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا کے غریب بچوں کے لئے بھی وہ امید کی کرن بن کر آئے ہیں۔ وہ خود بچوں سے ملاقات کرتے ہیں اور اپنے ملک میں بذات خود فنڈز جمع کرنے کی سرگرمیوں میں حصہ لیتےہیں۔ انہوں نے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں پولیو کے بارے میں غلط تاثر کو ختم کرنے کی مہم بھی شروع کی۔ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں فری میڈیکل کیمپس کا انعقادر کرتے ہی۔
بخیت عتیق الرومیتی بزنس سے وابستہ خواتین، خواتین آرٹسس، اسپورٹس ویمن اور علم و ادب سے وابستہ خواتین کی حوصلہ افزائی میں بھی پیش پیش ہیں۔ انہیں کراچی میں بڑا ویزا سینٹر کھولنے کا اعزاز بھی حاصل ہے جہاں سے کام اور ملازمتوں کے لیے درخواستیں دینے والوں کو آسانی پیدا ہو گی۔ ویزا سینٹر کو ورک ویزے جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے شہریوں کو متحدہ عرب امارات میں نوکریاں ملنے پر ویزا سینٹر میں سہولت فراہم کی جائے گی، یہاں روزانہ کی بنیاد پر تصدیق کی خدمات بھی فراہم کی جائیں گی۔
ویزا سینٹر سے دستاویزات کے عمل میں کافی آسانی پیدا ہو گی اور کسی بھی خرابی یا غلطی سے بچنے کے لیے اسے اچھی طرح چیک کیا جا سکے گا۔
بطور سفارتکار بخیت عتیق الرومیتی نے اپنے صاحبزادے حامد بخیت کو بھی پاکستان کے عوام کی خدمت کے لئے وققف کر رکھا ہے۔ بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی خدمات نے دیگر ممالک اور سفارتکارں کے لئے قابل تقلید مثال ہیں۔
تحریر: زینب وحید
تبصرے بند ہیں.