قانون کی عملداری؟

88

کوئی بھی ملک یا معاشرہ قانون کی حاکمیت کے بغیر امن وسکون کے ساتھ نہیں رہ سکتا نہ ترقی کر سکتا ہے اور بد قسمتی سے آج تنزلی کے جس مقام پر ہم کھڑے ہیں اس کی بنیادی وجہ ہماری اشرافیہ ہی ہے۔کہتے ہیں تبدیلی کا عمل اوپر سے شروع ہو کر نیچے آتا ہے۔ یہ معقولہ غلط ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا جیسے حکمران ویسی عوام کیونکہ عوام اشرافیہ کی پیروی کرتی ہے،اگر ایک سرکاری افسر ٹریفک کا سگنل توڑے گا تو عوام بھی یہی عمل دہرائے گی، پاکستان میں ہر کوئی دوسرئے کو یہ درس دیتا دکھائی دے گا کہ فلاں ایسا ہے اگر یوں ہو جائے تو ایسا نہ ہوتا اور ملک کی اکثریت ہر برائی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جاتی ہے۔
اسلام جس کی بنیاد ہی بہترین اخلاق کو قرار دیا گیاہے وہ ہمیں خود میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ہمارئے یہاں اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہے کہ تاجر،دکاندار سودا فروخت کرتے وقت اس کی خرابی کی نشان دہی تو درکنار بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ پیسے تو پورئے لئے جائیں مگر سودا خراب دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر طبقات کا حال ہے ایک طرف لوگ ٹریفک کے سگنل کی خلاف وزرزی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تو دوسری جانب ٹریفک وارڈن دور کھڑئے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
یورپ کی اچھائیوں کو بیان اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہاں اخلاقی قدروں کو زوال نہیں آیا لوگ جھوٹ نہیں بولتے گواہی نہیں چھپاتے،برائی کرنے والے کو اچھا نہیں سمجھا جاتاقانون کی پاسداری ملک کے سربراہ سے لیکر عام آدمی تک کرتا دکھائی دیتا ہے کوئی کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتا،ریاستی اہلکار (پولیس) اشتہاریوں کا بہانہ بنا کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہیں کرتے قاتلوں دہشت گردوں کی نہ ہی پشت پناہی کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں ہیرو کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے اسی لئے وہ معاشرے ترقی کرتے نظر آتے ہیں۔
بہت ساری مثالیں اور واقعات سنائے جا سکتے ہیں مگر یہاں صرف ایک واقعے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے بات آگے بڑھائیں گے، یورپ میں ایک لڑکے اور لڑکی کی محبت عروج پر تھی اور وہ ایک
دوسرے کے بغیر زندہ نہ رہنے کے عہدو پیمان کرتے رہتے تھے کچھ عرصہ گزرا تو ان دونوں نے شادی کا فیصلہ باہمی رضا مندی سے کر لیا اور منگنی کی رسم ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا کر اپنے رواج کے مطابق ادا کر دی اس کے بعد دونوں خوش خوش لانگ ڈرائیو پر نکل کھڑئے ہوئے خوشی کی مستی میں راستے میں اٹھکیلیاں کرتے جا رہے تھے کے موج مستی میں ایک چوراہے پر لڑکے نے ٹریفک سگنل توڑ دیا لڑکی نے کہا تم نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے لڑکا کہنے لگا ہنی بھول جاؤ اس معمولی بات کو لڑکی نے کہا ڈارلنگ پلیز ذرا گاڑی سائیڈ پر روکنا لڑکا خوش ہو گیا اور گاڑی کو سائیڈ پر لگا دیا کہ چلیں موج مستی کرتے ہیں، لڑکی نے کار کا دروازہ کھولا اپنی شدید محبت کی پہلی نشانی اور خوشی ”انگوٹھی“ انگلی سے اتاری اور اسے واپس کرتے ہوئے تاریخ ساز جملہ کہا ’اے مسٹر‘ تم جس کے ساتھ میں نے اپنی پوری زندگی گزارنی تھی وہ ٹریفک سگنلز توڑنے کو معمولی واقعہ کہتا ہے تو نہ جانے عملی زندگی میں کیا کیا خلاف ورزیاں کرے گا، میں ایسے شخص کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی جو قانون کی پاسداری نہ کرتا ہو“ کہا اور چلی گئی۔کیا یہاں اس بات کا تصور بھی کیا سکتا ہے؟ نہیں بلکہ ممکن ہی نہیں ہم اپنے چوروں کو چور سمجھتے ہی نہیں۔
بات اخلاق سے چلی تھی اور اسی پر رہتے ہوئے ہم یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ ریاست کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اس کا حالات و واقعات پر قابو نہ پانا بھی ہے اس ملک میں قانون ہے پولیس ہے، عدالتیں ہیں پھر بھی لوگ قانون توڑتے اور ہاتھ میں لیتے دکھائی دیتے ہیں اس کی بنیادی وجہ وہی ہے کہ ریاست اپنا بنیادی فریضہ ”قانون کی عملداری“ سر انجام نہیں دے پا رہی۔پاکستان میں ویسے بھی شہریوں کے اخلاق درست کرنے کا ٹھیکہ پولیس اور مذہبی جماعتوں نے لے رکھا ہے پولیس سیکورٹی کے نام پر لوگوں کے گھروں،گیسٹ ہاوسز اور جہاں اس کا دل کرتا ہے بلا اجازت داخل ہو کر شہریوں کے ”اخلاق“ درست کر رہی ہوتی ہے تو مذہبی جماعتیں لٹھ لے کر قومی دنوں اور تہوارں پر عوام کے اخلاق درست کر رہے ہوتے ہیں۔ اس ملک میں ہنسی خوشی کے موقعے کم سے کم کر دئیے گئے ہیں جس کی بنا پر پورا معاشرہ فرسٹریشن کا شکار نظر آتا ہے پاکستانی قوم کی ہنسی اور خوشی اس ملک کی اخلاق سدھار کے ٹھکیداروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور انہوں نے آج ملک کو اس حالت تک پہنچا دیا ہے کہ اب ہنسنے اور قہقے لگانے کے لئے بھی سو بار سوچنا پڑتا ہے بلکہ اب تو ریاستی مشینری بھی قوم کے اخلاق سنوارنے کے لئے میدان میں لٹھ لے کر نکل آئی ہے پہلے یہ کام صرف مذہبی جماعتوں کے کارکن کرتے تھے اب پولیس نے کرنا شروع کر دیا ہے،خوف ہی خوف ہر طرف پھیلایا جا رہا ہے اور اس خوف کو پھیلانے میں میڈیا بھی پیش پیش ہے۔
لوگوں کی نجی زندگی میں بے جا مداخلت کے واقعات اب روز مرہ کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کے عوام کو ہنسنے،بولنے اور قہقہے لگانے کا ذرا سا بھی حق نہیں ہے؟اگر یہ سب دہشت گردوں کے خوف کے سبب ہے تو پھر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ یہاں قبرستان جیسا سناٹا ہو اور ملک میں تعمیرو ترقی کا عمل رک جائے لوگ ایک دوسرئے سے بے زار ہو جائیں اور کوئی کسی کے کام نہ آسکے،کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا،تو کیا ان کے ارادوں کے آگے قوم کو ہار جانا چاہیے؟ یا مقابلہ کرنا چاہیے؟ ان حالات میں جہاں لوگوں سے ان کی ہنسی اور خوشی چھیننے والے سر گرم ہیں وہاں تو ریاست کے کار پردازوں کے لئے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ قوم کے اندر پھیلنے والی مایوسی اور ملال کو دور کرنے کے جتن کریں نہ کے ان پر مزید پابندیاں لگائی جائیں۔ ضروری ہے کہ ملک بھر میں تفریحی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے،کھیل تماشے کئے جائیں تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو اور وہ سخت سے سخت حالات کا مقابلہ جواں مردی سے کر سکیں پاکستانی قوم بہت زخم سہہ رہی ہے اور بہت دکھ بھی اٹھائے جا رہے ہیں، ہمارے تقسیم شدہ معاشرے میں مزید توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے برائی کی قوتیں حاوی ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی‘ جوڑتوڑ اور سازشوں کا زور ہے اور جمہوریت‘ جسے ہم نے بڑی قربانیوں‘ دعاؤں اور انتظار کے بعد حاصل کیا ہے‘ ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکی بلکہ اس پر بھی خوف کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اب ہمیں عہد کرنا ہے کہ اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے جو اس ملک اور عوام کے دشمن ہیں ان کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اس لئے خوشی اور ہنسی پر ہمارا بھی حق ہے اور اسے کسی کو چھیننے نہ دیں۔

تبصرے بند ہیں.