چودھری شجاعت حسین کی سیاست

57

پاکستانی سیاست میں وضع داری اور مفاہمت کا نام ہمیشہ مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے ساتھ جڑا رہے گا،سیاست کی خزاں رتوں میں بھی وہ ہمیشہ بہار کا استعارہ بن کے سامنے آتے ہیں اور مٹی پاؤ کا درس دیتے ہوئے مخالفین کو دوستی کی لڑی میں پرو جاتے ہیں،ان دنوں پھر سیاست میں ایک بحرانی کیفیت ہے اور ضرورت ان جیسے سیاستدان کی ہے جو سب کو ایک جگہ اکٹھا کر کے افہام و تفہیم کا درس دے سکے۔ چودھری شجاعت کی سیاست سب کے سامنے ہے ،وہ جو کرتے ہیں ببانگ دہل کرتے ہیں لگی لپٹی نہیں رکھتے مگر وضعداری اور افہام و تفہیم کوئی ان سے سیکھے۔میری نظر میں وہ آج بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں ،انہوں نے سیاسی راہنماؤں سے ہمیشہ رابطے رکھے ہیں ، ان حالات میںان کا میدان عمل میں آنا ضروری ہے ، سیاسی معاملات سے وہ بخوبی آگاہ ہیں، کب کیا کرنا ہے ان سے بہتر شاید کوئی نہیں جانتا، سیاست کے خوش گوار ماحول میںچودھری شجاعت کی متانت، ذہانت، سیاسی فہم و بصیرت کا بہت عمل دخل ہے۔ویسے تو سیاست کے اس بے رحم دھارے میں گجرات کا چودھری خاندان بھی ایک نہ رہا، رواداری، وضعداری، خدمت، اتحاد ویکجہتی میں مثال اس خاندان کی محبت اخوت بھائی چارے کی کھیتی میں بھی نفرت عداوت کی خود رو جھاڑیوں نے جگہ بنا لی نتیجے میں چودھری ظہور الٰہی کے سیاسی وارثین کی راہیں جدا ہو گئیں۔چودھری شجاعت ہمیشہ سے مسلم لیگوں کے اتحاد اور ادغام کے بھی حامی رہے ہیں ،ایک بار میں نے ان سے مسلم لیگی اتحاد بارے پوچھا تو انہوں نے کہا تھا کہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ہم سے بڑی ہے اگر وہ چاہیں گے تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا ،اب وہ ویسے ہی اکٹھے ہیں ،ہو سکتا ہے ان کا یہ عارضی اتحاد بھی مستقل بن جائے۔
چودھری خاندان مطلع سیاست پر 60کی دہائی میں ایوبی آمریت میں نمودار ہوااور مختصر عرصہ میں چودھری ظہور الٰہی سیاسی افق پر دمکنے لگے،شعلہ بیان ظہورالٰہی شعلہ بیانی کے ساتھ جوالہ مکھی طبیعت کے بھی حامل تھے،انہوں نے ایسے ماحول میں سیاست میں قدم جمائے جب سیاست دان تنظیمی ہی نہیں نظریاتی حوالے سے بھی تقسیم در تقسیم کا شکار تھے،ظہور الٰہی نے رواداری بھائی چارے اخوت کو فروغ دیا،ایوب خان نے ان کو اپنی کابینہ کا حصہ بنا لیا مگر ظہور الٰہی کی افتاد طبع نے ان کو چین نہ لینے دیا اور وزارت چھوڑ کر اپوزیشن میں جا بیٹھے اور پھر زندان کی زینت بنا دئیے گئے،یہ وہ دور تھا جب چودھری شجاعت کو والد کی عارضی سیاسی جانشینی کا موقع میسر آیا،ایوب کے بعد یحییٰ دور میں بھی قیدو بند کا سلسلہ جاری رہا اور چودھری شجاعت نت نئے تجربات سے گزرتے رہے،70ءکے الیکشن میں بھی ظہور الٰہی پابند سلاسل تھے یہ انتخابی مہم بھی چودھری شجاعت نے چلائی اور کامیابی حاصل کی،بھٹو بھی ظہور الٰہی کی تنقیدبرداشت نہ کر سکے اور انہیں بھینس چوری کے مقدمہ میں جیل بھیج دیا،اس دوران الیکشن میں ظہور الٰہی نے لاہور سے بھٹو کے مقابلہ میں الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات جمع کرائے،یہ پہلا موقع تھا جب چودھری شجاعت کو حکومتی اداروں اور وسائل کا سامنا کرنا پڑا،مگر انہوں نے انتہائی استقامت استقلال اور فرزانگی سے یہ جنگ لڑی۔
اس تمام عرصہ میں ظہور الٰہی کے سیاسی جانشین نے عوام،حکام سے رابطوں کو برقرار رکھا،خاندان کی خدمت کی روایت کو بھی زندہ رکھا،اس دوران مرکزی معاملات کی قیادت کی ،چودھری ظہور الٰہی کی شہادت کے بعد اسی اصول کی بنیاد پر سیاسی میدان میں سر گرم رہے،ہر قسم کے بدترین نا مساعد حالات میں چودھری خاندان کو ساتھ لے کر چلے انہوں نے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا اورقدم بہ قدم آگے بڑھتے رہے،ضیاءالحق نے نواز شریف کا پودا لگایا تو ان کی بھی حمایت کی،شریف خاندان سے وفاداری نبھائی ،پاکستان مسلم لیگ ق کی بنیاد رکھی،مشرف دور میں حکومت بنائی،طویل عرصہ کی یہ رفاقت عمران خان کی حکمیت و مخالفت پر رقابت میں تبدیل ہو گئی،ق لیف کی قیادت سیاست پر بھی اختلافات ہوئے،چودھری شجاعت کو صدارت سے ہٹایا گیا مگر وہ اپنے سیاسی نظریات پر ڈٹے رہے۔
حالیہ دنوں میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب پر جنم لینے والے بحران نے چودھری ظہور الٰہی کے خانوادے کی نہ صرف سیاسی راہیں جدا کر دی ہیں بلکہ ذاتی تعلقات میں تلخی بھی بھر دی ہے،چودھری خاندان کی رفاقت رقابت میں کیوں بدلی؟ کیا ساٹھ کی دہائی سے پنجاب کی سیاست میں برادری اور دھڑے کے زور پر ناموری اور قوت حاصل کرنے والے خاندان کی سیاسی طاقت کے خاتمے کا آغاز ہو گیا ہے؟چودھری خاندان میں اس سے پہلے بھی اختلافات سر اٹھاتے رہے ہیں مگر عمران خان کی حمایت پر دونوں بھائیوں کی سیاسی منزل الگ ہوگئی۔
چودھری ظہور الہٰی جوڑ توڑ اور دھڑے بندی کی سیاست کے بادشاہ مانے جاتے تھے،چودھری شجاعت بھی والد کی ان خوبیوں سے مالا مال ہیں، نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف کا آغاز ان کے پہلے دور کے آغاز میں ہی ہو گیا تھا جسے چودھری شجاعت نے اپنے اثرورسوخ اور معاملہ فہمی سے سنبھالے رکھا،مگر نواز شریف خود بھی جذباتی تھے اور جذباتی لوگوں کے نرغے میں تھے اس لئے ان سے دوری اختیار کر لی اپنی مخاصمانہ روش نہ بدلی،طاہرالقادری نے جب زرداری دور میں اسلام آباد دھرنا دیا تو بھی چودھری شجاعت بروئے کار آئے،مشرف کو عام انتخابات کی طرف راغب کرنے والے بھی و ہی تھے،عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے آغاز میں بھی انہوں نے مفاہمت کیلئے کردار ادا کرنے کی کوشش کی مگر ممکن نہ ہو سکا اور نتیجے میں چودھری خاندان میں دراڑ آگئی، چودھری شجاعت حسین نے بھٹو دور میں جب سیاسی سفر کا آغاز کیااس وقت چودھری ظہور الٰہی ڈپٹی اپوزیشن لیڈر تھے،آئین میں چوتھی ترمیم کے معاملے پر جب ان کے حکومت سے تعلقات میں کشیدگی ہوئی تو اس کا نتیجہ ان کی گرفتاری کی صورت میں نکلا، ماضی میں ان کے میاں برادران سے سیاسی اختلاف اور ذاتی رنجش کی سب سے بڑی وجہ پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیر اعلی نہ بنانا تھا،اسی ردعمل اور انتقام کے زیراثر انہوں نے نہ صرف پرویز مشرف کی حمایت کی بلکہ اپنی علیحدہ مسلم لیگ بھی قائم کر لی۔
سیاسی طالب علموں کیلئے یہ بات انتہائی پریشان کن ہے،ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ خدمت کی جس سیاست کی بنیاد ظہور الٰہی شہید نے رکھی تھی کیا وہ اب ختم یا کم ہو جائے گی، رواداری، وضعداری، محبت، اتحاد و یکجہتی کی جو روایات ظہور الٰہی اور چودھری خاندان کی وجہ شہرت تھی و ہ روایات کیسے زندگی پائیں گی؟اس حوالے سے شاید چودھری شجاعت حسین کو کسی مشورے کی ضرورت نہیں کہ ان کا خمیر تربیت اور سوچ اب بھی وہی ہے،ق لیگ کے کارکن ہی نہیں عام شہری بھی چودھری شجاعت کی بذلہ سنجی ،معاملہ فہمی،اثرورسوخ،ذہانت، فراست،مفاہمت اور اتحاد یکجہتی کیلئے ”مٹی پاو¿“ فارمولا کا قائل ہے اور چاہتا ہے کہ چودھری شجاعت ملکی سیاست میں رواداری وضعدار ی خدمت کے بیج بوتے اور ان کی آبیاری کرتے رہیں۔

تبصرے بند ہیں.