تجھے موت پڑے اے موت

25

موت کا ایک دن ایک وقت مقرر ہے ، اس میں ایک سیکنڈ کی کمی ہو سکتی ہے نہ اضافہ ہو سکتا ہے ، میرے ابو جان کو جب کوئی یہ دعا دیتا ”اللہ آپ کی عمر دراز کرے“ وہ فرماتے”مجھے جھوٹی دعا مت دیں ، مجھے سچی دعا دیں کہ اللہ آپ کو اچھی صحت اور ایمان والی عمر عطا فرمائے“۔۔
میری والدہ محترمہ اکثر فرماتی تھیں ”اللہ مینوں چل دیاں پھر دیاں لے جاویں“ ، ان کی یہ دعا پوری ہوگئی ، چند سیکنڈ میں وہ زندگی سے موت کی طرف چلی گئیں ، جیسے گزشتہ روز ہمارا عزیز بھائی عاطف اکرام چلے گیا ، اماں شوگر کی مریضہ تھیں ، میں سال میں دو تین بار ان کے سارے میڈیکل ٹیسٹ کرواتا تھا ، ان کی وفات سے ایک روز پہلے میں انہیں پی آئی سی لے گیا ، وہاں ایک مشہور ماہر امراض دل نے ان کا چیک اپ کیا ، ا±ن کے ٹیسٹوں کی ساری رپورٹس دیکھ کر وہ ان سے کہنے لگے”ماں جی آپ کو دس برسوں سے شوگر ہے مگر آپ کی رپورٹس دیکھ کر لگتا ہے آپ کا دل پندرہ بیس برسوں جیسا جوان ہے ، شوگر نے آپ کے دل کا کچھ نہیں بگاڑا“۔۔ اس سے اگلے ہی روز وہ رات کو عشاءکی نماز ادا کرنے کے بعد اچھی بھلی گھر کے لان میں ہلکی پھلکی واک کر کے اندر اپنے بیڈ روم میں آئیں ، میں ان کے قریب ہی بیٹھا تھا ، اچانک وہ کھانسنے لگیں ، مجھے لگا ان کے گلے میں خراش سی ہے ، میں ان کے لئے پانی لینے کچن میں گیا ، واپس آیا وہ واش روم کی طرف بڑھ رہی تھیں ، واش روم کے دروازے پر پہنچیں اچانک واش روم کے اندر دیکھ کر وہ چلانے لگیں”کون ایں توں ، کون ایں توں ؟“ ، میں سمجھا واش روم میں شاید کوئی چور چھپا بیٹھا ہے جسے دیکھ کر وہ ڈر گئی ہیں ، میں نے آگے بڑھ کر دیکھا اندر کوئی نہیں تھا ، پھر وہ گر گئیں ، بڑی بے چارگی سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں”پتر میریاں لتاں وچوں کوئی جان کڈ ریا اے“ ، ان کا چہرہ سفید پڑ چکا تھا ، میں ان کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گیا ، گھر میں موجود سبھی لوگ ان کے پاس اکٹھے ہوگئے ، پھر وہ کلمہ پڑھنے لگیں ، اپنا ہاتھ ذرا سا اوپر اٹھایا یوں لگا وہ ہم سب سے بھی یہ کہہ رہی ہوں آپ بھی کلمہ پڑھیں ، دس پندرہ سیکنڈ تک ان کا سانس اکھڑ رہا تھا ، چھوٹے بھائی نے گاڑی سٹارٹ کی ، ہم انہیں اٹھا کر ہسپتال لے جانے لگے مگر وہ کہیں اور چلی گئیں ، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ، ان کی اس قدر اچانک وفات پر میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ”جب کوئی انسان بطور مسلمان پیدا ہوتا ہے اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے اس اذان کی نماز نہیں ہوتی اور جب کوئی انسان بطور مسلمان مرتا ہے اس کی نماز پڑھائی جاتی ہے اس نماز کی اذان نہیں ہوتی ، گویا زندگی اذان اور نماز کے درمیانی وقفے کا نام ہے مگر اپنی ماں کی چند سیکنڈوں میں ہونے والی موت پر یہ راز مجھ پر کھلا زندگی اور موت میں اتنا وقفہ بھی نہیں جتنا اذان اور نماز میں ہوتا ہے“۔۔ میری امی کو یقینا احساس تک نہیں ہوگا اگلے چند سیکنڈوں میں وہ موت کا نوالہ بننے والی ہیں ،
موت کی آخری ہچکی کوذرا غور سے س±ن
عمر بھر کا خلاصہ اسی آواز میں ہے
زندگی اصل میں بڑھ نہیں رہی ہوتی کم ہو رہی ہوتی ہے ، ڈی آئی جی ڈاکٹر عاطف اکرام کے جنازے پر ان کے سسر کے گھر کی دیوار سے لگا میں سوگوار کھڑا تھا ، لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے”عاطف کی کتنی عمر تھی ؟ عاطف بیمار تھا ؟ عاطف سموکنگ کرتا تھا ؟ عاطف کو بلڈ پریشر تھا ؟ عاطف کو کوئی سٹریس تھا ؟“ ، میں یہ سب س±ن کر سوچ رہا تھا یہ سب سوال بے معنی ہیں ، موت ایسی بلا کا نام ہے جو کسی کی عمر دیکھتی ہے نہ بیماری دیکھتی ہے ، جب وقت آگیا پھر میاں محمد بخش کا شعر یاد آگیا
آگئی جان شکنجے اندر جوں ویلن نوں گنا
رو نوں کہو ہن روے محمد ہن روے تاں منا
ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے”قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے چھوٹی چھوٹی عمر کے لوگ مرنے لگیں گے“ ، قیامت کی یہ نشانی آج کل کھل کر سامنے آ رہی ہے ، آج کل بے شمار نوجوانوں اور بچوں کی اموات دل بند ہونے سے ہو رہی ہیں۔۔ موت کا ایک دن ایک وقت مقرر ہے ، اچانک موت اس حوالے سے تو بہتر ہوتی ہے انسان بیماری کی اذیتوں کا شکار نہیں ہوتا ، مگر کسی کی اچانک موت اس کے عزیز و اقارب اس کے دوستوں کے لئے کتنی اذیت ناک ہوتی ہے اس کا تصور بھی محال ہے ، انسان مرتا نہیں وہ انتقال فرماتا ہے ، انتقال کا مطلب ہے منتقل ہونا ، انسان ایک عارضی قیام گاہ سے مستقل قیام گاہ پر منتقل ہوتا ہے ، اصل موت تو اس کے لواحقین کی ہوتی ہے۔۔ عاطف اکرام کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی میں اس کا آخری دیدار کر سکوں ، میرے لئے وہ اب بھی زندہ ہے ، مگر اس روز میں نے اس کے بہن بھائیوں اس کے بچوں اس کے دوستوں کو غور سے دیکھا یوں محسوس ہوا وہ سب مر چکے ہیں ، مرحوم کی بچی کو کسی نے گود میں اٹھایا ہوا تھا ، وہ روئے جا رہی تھی ، اس کا رونا اس کی عمر سے زیادہ تھا ، میرا کلیجہ پھٹ رہا تھا ، میرا جی چاہا گھر کے اندر جا کر عاطف اکرام کی میت کے پاس کھڑے ہو کر اس سے کہوں
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
جانے والوں کو مگر کون روک سکتا ہے ، ہم اس زندگی سے محبت کرتے رہتے ہیں جو ہمارا ساتھ چھوڑتے ہوئے ہمیں پوچھتی تک نہیں ہے ، میں لڑکھڑاتے ڈگمگاتے قدموں سے چلتے ہوئے مقام جنازہ (مسجد) تک پہنچا ، رات کے ساڑہے نو بجے تھے ، یوں محسوس ہو رہا تھا یہ رات کبھی ختم نہیں ہوگی ، ایک کونے میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی سوگوار کھڑے تھے ، ہمارا یہ بھائی چاہے کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو لوگوں کے دکھ س±کھ میں شریک ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور ، سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ ، میرے برادران ریاض نذیر گاڑھا ، سلطان چوہدری ، راجہ رفعت ، ڈاکٹر اظہر اکرام ، آغا یوسف ، طیب حفیظ چیمہ ، سہیل اختر سکھیرا ، بابر بخت قریشی ، رانا ایاز سلیم ، مخدوم قیصر بشیر ،عمر سلامت اور بے شمار دیگر پولیس افسروں کے چہروں پر ایسی سوگواری ، ایسی اداسی تھی جیسے ان کے اپنے گھر کا کوئی فرد ، ان کا کوئی خونی رشتہ ان سے جدا ہو گیا ہو ، اندرو اندری سب پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے ، سب ٹوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے ، اللہ ہمارے اس رونے کو یہیں روک لے ،ہم اور کتنا اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھیں گے ؟ ؟ ؟

تبصرے بند ہیں.