بالآخر ادب کا ایک اور ستارہ امجد اسلام امجد کی صورت میں ٹوٹ گیا۔ ان کے بارے میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ اس طرح اچانک ہم سب کو حیران کر جائیں گے۔ یقین نہیں آ رہا اب ہم امجد صاحب کو یاد کیا کریں گے، درحقیقت امجد اسلام امجد بیک وقت ڈرامہ نویس ، مکالمہ نگار ، فلم رائیٹر، شاعر، کالم نگار، استاد اور سب سے بڑھ کر دوستوں، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ پیار کرنے والے اور بے تکلف تھے، میں نے پی ٹی وی پر بہت سے پروگرام ان پر کیے، ان کے ساتھ کیے۔ لیکن ہر بار میں نے انہیں ایک منفرد شخصیت کے طور پر پایا۔ ان کی شاعری، شخصیت، دوستی، ہم سفری، دلداری سبھی تشنہ الفاظ ہیں۔ اور تشنہ بھی ایسے ویسے۔ وہ پاکستانی ادب کا بھی چہرہ تھے اور لاہور کا بھی۔ کیسے تصور کیا جائے کہ ادب میں اور لاہور میں رہنا ہوگا لیکن امجد بھائی نہیں ہوں گے۔ امجد بھائی جملے باز‘ بذلہ سنج‘ نکتہ شناس اور حاضر جواب دوست تھے۔ ان کی طبیعت کی خرابی کے باوجود ان کی شگفتہ طبعی اور زندہ دلی میں فرق نہیں آتا تھا۔ بہرحال امجد اسلام امجد صاحب رخصت ہوگئے۔ اردو ادب اور شاعری کی توانا آواز۔ ذہن و دل کے دریچوں کو ان کی نظموں نے بارہا فرحت و شامانی عطا کی ہے۔متعدد بار انکے اشعار نے بے کیف ساعتوں کو گل و گلزار کیا ہے۔ اکثر مایوسی کے اندھیروں میں انکے لفظوں نے امید کے چراغ روشن کئے ہیں اور بعض اوقات تو لفظوں نے جراحی کا کام کر کے شفا دی ہے۔ تخلیق کار کو ہمیشہ اس کا فن اور ہنر زندہ رکھتا ہے۔ بلا شعبہ امجد اسلام امجد صاحب کا کلام ایسا ہے کہ جو آنےوالی کئی نسلوں کو شاداں و فرحاں کرتا رہے گا۔ جب جب کوئی دل محبت کی اذان دےگا تو اسے رنگ بھرنے کےلئے امجد اسلام امجد صاحب کے فقرے مستعار لینا ہونگے۔ ویسے بھی بقول ان کے
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا
محبت ان کا خاص موضوع تھا۔اس محبت کے دریا میں ان کے الفاظ طغیانی لاتے رہیں گے۔ جب بھی آپ محبت کے دائرے میں داخل ہو جائیں گے تو ، خوشبو ، تتلی ، ہوا ، گلاب ، اوس ، ستاروں اور لہروں کا یہ شاعر آپ کو اپنی یاد آنے پر مجبور کر دے گا۔ایک بار تو پی ٹی وی پر پروگرام کے دوران انہوں نے اپنی نظم کے چند اشعار کہے تو میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ پھر امجد صاحب نے یہ چند اشعار پڑھے۔
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا۔
1972 میں امجد اسلام امجد نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ایک ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ تحریر کیا، یہاں سے ان کی ڈرامہ نگاری کے سفر کا آغاز ہوا۔ مگر جس ڈرامہ سیریل نے انھیں شہرت کے بام عروج تک پہنچایا وہ ’وارث‘ تھا۔اس ڈرامے کی پہلی قسط 13 اکتوبر 1979 کو نشر ہوئی، اس کی کہانی جاگیردار معاشرے کے گرد گھومتی تھی، یہ ایک سادہ اور حقیقی کہانی تھی جس کے کردار ہمارے چاروں طرف موجود ہیں۔ اس سادہ سی کہانی نے وارث کو پاکستان کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل بنا دیا۔یہ سیریل اس قدر مقبول ہوا کہ یہ عوامی جمہوریہ چین کے قومی نیٹ ورک پر چینی زبان میں ڈب کر کے بھی پیش کیا گیا۔ وارث کے بعد ان کے لکھے ہوئے جو ڈرامہ سیریل ناظرین میں بے حد پسند کیے گئے ان میں دہلیز، سمندر، دن، وقت، گرہ، بندگی، اگر، اپنے لوگ، رات، ایندھن، زمانہ، شیرازہ اور انکار کے نام سرفہرست رہے۔ڈراموں کی مقبولیت انھیں فلمی دنیا میں بھی لے گئی۔ انھوں نے چند فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے جن میں قربانی، حق مہر، نجات، چوروں کی بارات، جو ڈر گیا وہ مر گیا، سلاخیں اور امانت شامل ہیں۔ان ڈراموں اور فلموں کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد کا شعری سفر بھی جاری رہا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’برزخ‘ تھا جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا۔اس کے بعد ان کے پچیس تیس مجموعے شائع ہوئے جن میں ساتوں در،فشار، ذرا پھر سے کہنا، اتنے خواب کہاں رکھوں گا، آنکھوں میں تیرے سپنے، سحر آثار، سپنے کیسے بات کریں، ساحلوں کی ہوا، پھر یوں ہوا، رات سمندر میںاور اسباب شامل ہیں۔ امجد اسلام امجد کا نثری سفر بھی بہت طویل ہے۔ ان کے کئی سفرنامے شائع ہوئے جن میں شہر در شہر، ریشم ریشم، سات دن اور چلو جاپان چلتے ہیں سرفہرست ہیں۔وہ قومی اخبارات میں بھی مستقل کالم نگاری کرتے رہے۔ امجد اسلام امجد نے اپنے کیریئر کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا تھا بعدازاں وہ کئی انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہے جن میں الحمرا آرٹس کونسل لاہور، اردو سائنس بورڈ اور چلڈرن کمپلیکس لاہور کے نام شامل تھے۔ وہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ متعدد اداروں کی سنڈیکیٹ اور بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔ امجد اسلام امجد نے اپنی شاعری کی بدولت دنیا بھر کے سفر کیے، ہر جگہ ان کے چاہنے والے موجود تھے۔امجد اسلام امجد کو دنیا بھر سے مختلف اعزازات بھی عطا ہوئے جن میں حکومت پاکستان کے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔اس کے علاوہ انھیں پاکستان ٹیلی ویژن، اکادمی ادبیات، نگار ایوارڈ، گریجویٹ ایوارڈ اور مجلس فروغ اردو کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔آج امجد اسلام امجد صاحب اپنے حصے کی شمعیں جلاتے رخصت ہو گئے ہیں۔ وہ یقینا ہم میں اپنی شاعری، تصانیف اور سفرناموں کے ذریعے زندہ و جاوید رہیں گے اور آنے والی نسلیں ان کے لکھے ہوئے سے مستفید ہوتی رہیں گی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.