والدین سے زیادہ دل کا کمزور رشتہ کوئی نہیں، جن کے بعد بھائی اور بہن ہیں۔ ہماری لوک کہانیوں میں والدہ کی مامتا پر زیادہ اظہار خیال کیا گیا جبکہ والد کے لیے معاملہ ویسا نہیں۔ مجھے ایک دن میرے دوست اورنگزیب بٹ نے ایک واقعہ وٹس ایپ کیا کہ بیٹی اور والد جا رہے تھے، بیٹی نے بوڑھے باپ کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ آگے ایک لکڑی کا تین چار فٹ چوڑا پل اور نیچے دریا تھا۔ ایسے مناظر پہاڑی علاقوں میں اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں پل پہ چڑھتے وقت بیٹی نے کہا کہ بابا آپ میرے ہاتھ پکڑ لیں۔ بوڑھا باپ حیران ہو گیا اور پوچھنے لگا، بیٹی کیوں کیا ہوا، آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ بیٹی نے کہا بابا آگے مشکل ہے ہو سکتا ہے میں آپ کا ہاتھ چھوڑ دوں مگر آپ میرا ہاتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اگلے وقتوں میں برصغیر میں غدر کے دنوں میں خواجہ حسن جو اخلاق احمد دہلوی کے گھر میں مقیم بہادر شاہ ظفر کی نواسی سے روداد سن سن کر مورخ بن گئے، لکھتے ہیں: ”ماہ عالم ایک شہزادے کا نام تھا جو شاہ عالم بادشاہ دہلی کے نواسوں میں تھا اور غدر میں اس کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ جب غدر پڑا تو ماہ عالم کی والدہ بیمار تھیں۔ علاج ہو رہا تھا مگر مرض برابر بڑھتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ عین اس روز جب کہ بہادر شاہ قلعے سے نکلے اور شہر کی تمام رعایا پریشان ہو کر چاروں طرف بھاگنے لگی، ماہ عالم کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ان کے والد مرزانوروز حیدر اسی سوچ میں تھے کہ گوروں اور سکھوں کی فوج کے چند سپاہی گھر میں آ گئے اور آتے ہی مرزا اور ان کے لڑکے ماہ عالم کو گرفتار کر لیا۔ اگرچہ ان فوجیوں کو لاش کا حال معلوم ہو گیا تھا مگر انہوں نے اس کی مطلق پروا نہ کی اور برابر لوٹ مار کرتے رہے۔ آخر قیمتی سامان کی گٹھڑیاں، لونڈیوں اور خود مرزا نوروز حیدر ان کے لڑکے ماہ عالم کے سر پر رکھیں اور بکریوں کی طرح ان کو ہانکتے ہوئے گھر
سے باہر لے چلے۔ اس وقت مرزا نے اپنے لٹے ہوئے گھر کو آخری حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور بیوی کی بے گورو کفن لاش کو اکیلا چارپائی پر چھوڑ کر ظلمی سپاہیوں کے ساتھ کوچ کیا۔غریب ماہ عالم کی بری حالت تھی، خالی ہاتھ چلنے سے چکر آتے تھے کجا یہ نوبت کہ سر پر بوجھ، پیچھے چمکتی ہوئی تلواریں اور جلدی چلنے کی قہرناک تاکید، بے چارے کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے۔ دم چڑھ گیا، بدن پسینہ پسینہ ہو گیا تھا۔ آخر نہایت مجبوری کی حالت میں باپ سے کہا ”ابا حضور مجھ سے تو چلا نہیں جاتا، گردن بوجھ کے مارے ٹوٹی جاتی ہے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ رہا ہے، ایسا نہ ہو گر پڑوں“۔ باپ سے اپنے لاڈلے اکلوتے بچے کی یہ مصیبت بھری باتیں سنی نہ گئیں اور اس نے مڑ کر سپاہی سے کہا ”صاحب اس بچے کا اسباب بھی مجھ کو دے دو، یہ بیمار ہے گر پڑے گا“۔ مظلوم مرزا نے مار بھی کھائی مگر شفقت پدری کے مارے لڑکے کا بوجھ بغل میں لے لیا۔ گورے کو یہ حرکت بھی پسند نہ آئی اور اس نے جبراً مرزا سے گٹھڑی لے کر ماہ عالم کے سر پر رکھی اور ایک گھونسا اس بے کس و ناتواں کے بھی مارا۔ گھونسا کھا کر ماہ عالم آہ کہہ کر گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔ مرزا نوروز اپنے لخت جگر کی حالت دیکھ کر جوش میں آ گئے اور اسباب پھینک کر ایک مکہ گورے کو رسید کیا۔ دوسرا گورا آگے بڑھا تو تیموری شہزادے نے لپک کر ایک مکا اس کی ناک پر بھی مارا۔ یہ مکا بھی ایسا کاری پڑا کہ ناک پچک گئی اور خون بہنے لگا۔ گورے یہ حالت دیکھ کر پستول و کرچ تو بھول گئے اور ایک بارگی دونوں مرزا کو چمٹ گئے اور گھونسوں سے مارنے لگے۔ مرزا نے فوراً کرچ گھسیٹ لی اور اس ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ کرچ نے شانے سے سینہ تک کاٹ ڈالا۔ اس کے بعد دوسرے گورے پر حملہ کیا اور اسے بھی ذبح کر دیا۔ ان دونوں کو ہلاک کر کے ماہ عالم کی طرف متوجہ ہوئے، وہ بالکل بے ہوش تھا۔ باپ کے گود میں لیتے ہی آنکھیں کھول دیں اور گلے میں باہیں ڈال کر رونے لگا۔ مرزا اسی حالت میں تھے کہ پیچھے سے دس بارہ گورے اور سکھ سپاہی آ گئے۔ انہوں نے پستول کے چھ فائر یک دم کر دیئے جن سے زخمی ہو کر مرزا گر پڑے اور آناً فاناً تڑپ کر مر گئے۔ مرزا نوروز کی لاش کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور ماہ عالم کو لونڈیوں سمیت پہاڑی کے کیمپ میں لے گئے۔ ماہ عالم کو ایک گورے افسر کے حوالہ کر دیا گیا جو میرٹھ چھاؤنی میں تھے۔ ایک دن بھاگنے کا ارادہ کیا۔ چھوٹی عمر، راستے سے بے خبر، پکڑے جانے کا خوف، عجیب پریشانی کا عالم تھا، آخر وقت صبح ہوتے ہوتے میرٹھ سے تین چار کوس کے فاصلے پر پہنچ گئے۔ سامنے گاؤں تھا، وہاں جا کر ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ یہاں ایک فقیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے، انہوں نے جو ماہ عالم کی شریفانہ صورت دیکھی تو محبت سے پاس بلایا اور رات کی بچی ہوئی روٹی سامنے رکھی۔ ماہ عالم نے شاہ صاحب کو ہمدرد پا کر اپنی مصیبت کی داستان اول سے آخر تک سنائی۔ شاہ صاحب کے ہمراہ ایک ماہ کی پیدل مسافت کے بعد اجمیر شریف پہنچے۔ یہاں ان کے پیر صاحب جو بغداد کے رہنے والے تھے۔ ان پیر صاحب کو جب ماہ عالم کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی مہربانی سے پیش آئے اور ان دونوں کو ساتھ لے کر بمبئی چلے گئی۔ بمبئی کے قریب باندرہ میں شاہ صاحب رہتے تھے، وہیں ان کو بھی رکھا اور کئی برس یہاں رہ کر ماہ عالم نے قرآن شریف اور مسئلہ مسائل کی کتابیں پڑھیں اور نماز روزے سے خوب واقف ہو گئے۔ تب شاہ صاحب نے ان کی وہیں کسی نیک بخت سے شادی کر دی اور انہوں نے اسی جگہ رہنا اختیار کیا۔“ والدین ہر مخلوق کے اولاد پر قربان ہوتے ہوئے محسوس بھی نہیں کرتے کہ زندگی پھر نہیں آتی۔ لوک داستانوں میں والدین میں سے والد کے لیے بہت کم لکھا گیا، گایا گیا اور بولا گیا جب کہ بابر نے ہمایوں کے گرد پھیرے لیے ہوں یا پھر!!! آگے مجھے اپنے خاندان میں ایک دوسرے کے لیے ہر لمحہ ہر لحظہ قربانیوں کی داستان یاد آگئی، رہے نام اللہ کا
Prev Post
تبصرے بند ہیں.