یہی اصول، چلا آ رہا ہے، محفل کا
جو آج بیٹھے ہیں، کل وہ اٹھائے جائیں گے
(کلیم عاجز)
جو کوئی بھی انتخابات نہ کرانے کا ”سُور“ پھونک رہا ہے۔ اُس کا اِس ملک دشمنی میں، کہیں نہ کہیں ذاتی مفاد ضرور جڑا ہے۔ بڑی مشکل سے بیس سال میں سیاسی، انتظامی، عسکری اور کاروباری ایلیٹ کا ”کارٹل“ بے نقاب ہوا ہے۔ کون ہے، جو انہیں پھر سے مظلوم بنانے چلا ہے۔ صرف دو اسمبلیاں اور آئیں گی۔ یہ سب وقت کے ”کوڑے دان“ میں پڑے ہونگے۔ اگر بیس سال میں آٹھ کے بجائے چار وزرائے اعظم آتے تو، مزید دس سال نہیں چاہئے ہوتے۔ جمالی کو شوکت عزیز، گیلانی کو پرویز اشرف، نواز شریف کو عباسی، عمران کو شہباز شریف نہ بدلتے، تو سیاسی منظر نامہ اور زیادہ واضح ہوتا۔ عمران خان کا ”رومانس“ تو ختم ہو چکا تھا۔ مزید سولہ ماہ وہ اور وزیر اعظم رہ جاتے تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑنا تھی۔ قوم کا شوق پورا ہونے دیتے۔ اچھا خاصا شہباز شریف اور اسحاق ڈار کا بھرم تھا۔ آج انہوں نے قوم اور اپنے ”بلکہ “ سب کے کپڑے اتار دیئے ہیں۔ الحمد للہ۔۔۔ اس کے باوجود مُصر ہیں کہ ”باؤ جی“ آئیں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔
قارئین!!! آج وقت کے حمام میں اسٹیبلشمنٹ دوسروں کو ننگا کرتی کرتی خود بے پیراہن ہو گئی۔ مگر ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ”اتحادی“ بدلنے کے شوق نے اِنہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہر بار عاشق ہلکی سی بغاوت کرتے۔ پھر رجوع کر لیتے۔ آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہا، پھر پاو¿ں دبانا شروع کر دیئے۔ میاں نواز شریف نے ”دوسری“ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی۔ ہلکی آنچ دینا شروع کی تو۔ پھر سے راز و نیاز ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ پھر سے صدقے واری ہو گئی۔ حاجی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ عمران خان عجیب عاشق ہے۔ وہ محبوب سے اور محبوب اُس سے ڈر رہا ہے۔ وہ ملنا بھی چاہتا ہے اور محبوب کی قاتل اداؤں سے خائف بھی ہے۔ اسی بے اعتباری نے حالات وہاں پہنچا دیئے ہیں کہ ”ظالم سماج“ پہلی بار شدید غصے میں ہے کیونکہ سب پردے چاک ہو چکے ہیں۔ سماج مزید، مہنگی اور بے ثمر عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مگر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ یہ تھیٹر سمیٹا بھی نہ جائے۔ جس کی ”پرفارمنس“ انہیں پسند نہیں ہے۔ اُسے وہ خود تھیٹر سے نکلنے پر مجبور کر دیں گے۔ انہیں اس کے لیے کسی پروڈیوسر اور سکرپٹ رائٹر کی اب ضرورت نہیں۔ وہ ٹکٹس کی اصل آمدن جاننا چاہتے ہیں۔ وہ تھیٹر کے اخراجات کا فرانزک آڈٹ چاہتے ہیں۔ وہ فرنٹ لائن میں فری کے پاسز سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ اور اس کے ذمہ داروں کی گردنیں مانگتے ہیں۔ وہ کسی سکیورٹی والے کو تھیٹر کا مالک بھی نہیں بناناچاہتے۔
بات بہت ہی سادہ ہے۔ او ٹی ایس کے ایک سابق آفیسر اور داماد جی کو بات سمجھ آ گئی ہے۔ اس لیے، وہ جنرل باجوہ کو توسیع میں ووٹ دینے کو ووٹ کو عزت دو، والے بیانیے کی موت قرار دے رہے ہیں۔ انہیں کسی نے یہ نکتہ بھی سمجھا دیا ہے کہ ”بیگم صاحبہ“ کم از کم وزیراعظم نہیں بن رہیں۔ سکرپٹ کچھ اور ہے۔ اسی لیے سسر جی کو ”مس گائیڈ“ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے۔ او ٹی ایس کے دوسرے ذمہ دار بھی سمجھیں۔ محسن نقوی اور سلطان سکندر راجہ کے ذریعے، میڈ ان امریکہ پروڈکٹ تیار نہیں ہو سکتی۔ جو بائیڈن کے دوست کو اقتدار، اب صرف آسمان سے آئے فرشتے دے سکتے ہیں۔ یہ ہمارے ”فرشتوں“ کے بس کی بات نہیں۔ آپ چاہے، اب گیارہ اگست تک جائیں۔ پہلی بار ایمرجنسی کا تجربہ کر کے مزید چھ ماہ لے لیں۔ جو بوجھ آپ نے اٹھا لیا ہے۔ وہ آپ کو بھی ڈبو دے گا۔ آئی ایم ایف کا عذاب ملک میں اترنا شروع ہوا ہے، تو پوری قوم چیخیں مار رہی ہے۔ جب یہ عذاب عروج پر ہو گا۔ اس لمحہ کا ادراک کرنا ہو گا۔
ایک ایسا ملک جہاں، اس کے پاس اپنے ڈالر ہی نہیں ہیں۔ جو ”ٹیکنیکل ڈیفالٹ“ کر چکا ہے۔ اُس ملک کی کابینہ کی تعداد 83 ہے۔ اس کی صرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں تقریباً 30 سے زیادہ ہیں۔ اس کی قومی اسمبلی میں تین درجن کے قریب پارلیمانی سیکرٹری ہیں۔ سپیکر، ڈپٹی سپیکر ہیں۔ کوئی رکن ٹاسک فورس کا چیئرمین ہے۔ کوئی چیف وہیپ ہے۔کوئی بطور چیئرمین پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی بلٹ پروف گاڑیوں سے لُطف اندوز ہو رہا ہے۔ یعنی 176 میں سے ڈیڑھ سو سے زائد لوگ ڈبل تنخواہیں، مراعات، میڈیکل، غیر ملکی دورے، پتا نہیں اور کیا کچھ انجوائے کر رہے ہیں۔ ابھی سینیٹ والے الگ ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم کہے کہ اس کے 14 معاونین خصوصی تنخواہیں نہیں لیں گے ایک مضحکہ خیز دفاع ہے۔ اس کے باوجود سسٹم کا بچنا ضروری ہے۔ مسلسل پراسس ہی سب کو بے نقاب کر سکتا ہے۔ ایسے موقع پر انتخابات نہ کرانا، ظُلم عظیم ہو گا۔ یہ عوام، ریاست، ملک اور آئین سے حقیقی غداری ہو گی۔ حالات 2002، 2007، 2013 سے تو کروڑ درجہ بہتر ہیں۔ ایسے میں وزارت دفاع کا جواب اور الیکشن کمیشن کا فنڈز نہ ہونے کا رونا ناقابل قبول ہے۔ آپ اس ملک کے ساتھ، ”کھلواڑ“ کر رہے ہیں اس کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے۔ آپ کو ملک بچانا ہے، ڈیفالٹ سے بچنا ہے، تو فارمولہ بہت ہی سادہ ہے۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت، جس میں دو، دو سے زیادہ نمائندے نہ ہوں۔ وہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی توثیق کریں۔ اوورسیز پاکستانیوں سے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھیجنے کی اپیل کریں۔ تینوں افواج فوری طور پر اسلام آباد میں اہم سیکٹر، توسیع شدہ بلیو ایریا،مرکزی اور صوبائی حکومتیں پرائم پراپرٹیز ملک کے لیے خالی کر دیں۔ وفاقی وزرائ، صوبائی وزرائ، اور آفیسرز کی رہائش گاہیں قوم کے حوالے کی جائیں۔ تمام سٹیٹ اور صوبائی ہاو¿سز فروخت کر دیئے جائیں۔ پبلک سیکٹر کمپنیاں 51 فیصد حصص کے ساتھ اوورسیز اور پاکستانی شہریوں کو دے دی جائیں۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں دفاعی کارخانے پرائیویٹ سیکٹر کو دے کر، امریکی طرز پر انہیں کام کرنے دیں۔ فوج، ان سے اسلحہ خریدے۔ وہ خود ہی جدت اور ٹیکنالوجی لائیں گے۔ الیکٹرک گاڑیوں کا ہنگامی منصوبہ شروع کیا جائے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا سائز چھوٹا کریں۔ بلدیاتی اداروں کا سائز چھوٹا کریں۔ دفتری اوقات جلد اور کم کیے جائیں۔نئے کھیلوں کے میدان ہوں۔ اربوں ڈالر کی نئی سپورٹس انڈسٹری کے راستے کھولے جائیں۔ تعلیم اور صحت کا نیا نظام ترتیب دیا جائے۔ آپ ہمت، نیت اور ارادہ تو کریں ہزار میل سفر طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلا قدم اٹھائیں۔ بڑا سوچیں، قوم کا سوچیں، ملک، ریاست اور بچوں کا سوچیں، فوج کی مہاریں، موڑیں۔ اللہ کا خوف کریں۔ اپنی اصل ڈیوٹی کو سمجھیں۔ مشرف اور باجوہ چلے گئے۔ آپ کو بھی جانا ہے۔ محسن نقویوں اور سلطان سکندر راجاو¿ں کے ”فارمولوں“ سے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ ایک اور جنرل کے پاس موقع آیا ہے۔ وہ آئین، عوام اور پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو۔ ذات اور مفادات کے ساتھ تو سب نے کھڑا ہو کر دیکھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ کامیابی کا راستہ سامنے اور اس بار کوئی آپشن نہیں ہے۔۔۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.