جناب وائس چانسلر!یوٹو بروٹس؟

13

ابھی چند ہی دن پہلے کی بات ہے میرا گورنمنٹ کالج کے ایک سیمینار میں جانا ہوا۔ وائس چانسلر اصغر زیدی صاحب کی سربراہی میں صائمہ ارم صاحبہ اور شاہد اقبال صاحب ڈین آف فیکلٹی کے زیرانتظام اس سیمینار میں پنجاب کے تحقیقی مجلوں کے مدیران کو بلایا گیا تھا۔ سیمینار میں مدیران کو درپیش مسائل پر بہت کھل کھلا کے بات کی گئی اور ہائر ایجوکیشن کے لیے سفارشات مرتب کی گئیں۔ صائمہ ارم صاحبہ سے میری ملاقاتیں انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں لیکن میں نے ان کو ہمیشہ اردو زبان و ادب کی تدریس و ترویج اور اپنے شعبے کے لیے دن رات محنت کرتے پایا کیونکہ ان کی کوششوں سے کیے گئے کام کی گونج بین الاقوامی سطح پہ سنائی دیتی ہے۔ جہاں مجھے چوکس قسم کے نوکری پرست تدریسیوں سے بہت سارے شکوے رہتے ہیں وہاں میں خود کو پشاور یونیورسٹی کے سر اظہار اللہ اظہار، ایبٹ آباد کاج کے ڈاکٹر عامر سہیل، ایف سی یونیورسٹی کے ڈاکٹر شاہد اشرف اور جی سی یونیورسٹی کی پروفیسر صائمہ ارم صاحبہ جیسے اساتذہ کا ممنون پاتا ہوں کہ ان لوگوں کا شمار ہمارے ان اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں نسل ِ نو کی علمی و ادبی آبیاری کے فروغ اور زبان و ادب کی حقیقی ترقی کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ دوسری طرف استاد کے بھیس میں ایسا ایسا نوکری پرست تباہ کار بھی موجود ہے جس کا فوکس ذاتی مفادات، فوری ترقی اور حقیقی اساتذہ کی ٹانگ کھینچ کے پہلے ان کی کرسی پر جھپٹنا ہے اور پھر وہاں سے الٹی چھلانگ لگا کے اردو سائنس بورڈ اور اس جیسے کسی ادارے کی سربراہی فرمانے کے علاوہ کسی دوسری طرف مرکوز ہی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ لیکچرر سے پروفیسر تک یوں چھلانگیں لگاتے ہوئے پہنچتے ہیں کہ دنیا کے ہائی جمپ چمپئن بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ وائس چانسلر جناب اصغر زیدی صاحب نے جب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تو یہ ادارہ پہلے وی سی امیر حسین
کی مخصوص پارٹیوں اور غیر نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے بربادی کی آخری حد کو پہنچ چکا تھا لیکن زیدی صاحب نے اسے فوری اور بہترین پروفیشنل حکمت عملی سے نہ صرف ڈوبنے سے بچا لیا بلکہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ زیدی صاحب نے بہترین اساتذہ اور قابل منتظمین کو ذمہ داریاں سونپیں اور ایک بار پھر سے ادارے کی شاندار روایات کو زندہ کیا۔ لیکن اب میں اور میرے جیسے کتنے ہی ملک و قوم کے درد کے مارے ایک بار پھر اچانک حیران و پریشان کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ جناب اصغر زیدی صاحب کا وہ فیصلہ ہے جس میں شعبہ اردو کی ہیڈ صائمہ ارم کی مدتِ ذمہ داری پوری ہونے کے بعد تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرنے والے تازہ تازہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوئے ڈاکٹر احتشام کو صدر شعبہ اردو کی سیٹ پر فائز فرما دیا ہے۔ احتشام صاحب کو میں ان کے زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں۔ وہ ایک خوش گفتار و ملنسار لیکن چوکس انسان ہیں۔ چوکس اس لیے کہ وہ اپنی دو آنکھوں سے بیک وقت آٹھ اطراف میں دیکھ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا ذہن کسی کمپیوٹر کی طرح نفع نقصان کا فوری تجزیہ کر کے غیر محسوس فیصلہ کرنے پر قادر ہے۔ میں نے بہت پہلے ان کے بارے میں شاعر ِ عصر شفیق احمد خان کو بتایا تھا کہ یہ نوجوان مستقبل کا ناصر عباس نیئر، ڈاکٹر ضیاءالحسن یا ڈاکٹر عابد سیال ہے۔ یا پھر یہ لڑکا بڑا ہو کر یقیناً عطاءالحق قاسمی بنے گا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ اصغر زیدی صاحب جیسے فقیدالمثال ماہر تعلیم سے اتنی بڑی علمی، ادبی، اخلاقی اور قانونی غلطی ہو کیسے گئی کہ شعبے میں دو پروفیسرز کی موجودگی کے باوجود سنیارٹی میں چھٹے ساتویں نمبر پر آنے والے ایک نا تجربہ کار ایسوسی ایٹ پروفیسر کو شعبے پہ یک جنبش ِ قلم مسلط کر دیا ہے جبکہ قوانین میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ایسی کوئی بھی ذمہ داری پہلے تین سینئر موسٹ لوگوں میں سے ہی کسی کو دی جا سکتی ہے۔ آج پاکستان اور پاکستانی ادارے جس زوال کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ ہی یہی رہی ہے کہ ذمہ داری سے جینوئن، قابل اور حق دار لوگوں کو ہٹا کر سمارٹ اور نان جینوئن لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پہلے تو اس عمل سے احکامات صادر فرمانے والی اتھارٹی کی پیشہ ورانہ ساکھ اور کردار متاثر ہوتا ہے اور دوسرا اس سیٹ پر بیٹھنے والا نا اہل شخص پورے ادارے کا بیڑا غرق کر کے اٹھتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نا تو مجھے صائمہ ارم صاحبہ سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ڈاکٹر احتشام سے کوئی ذاتی پرخاش یا عناد ہے بلکہ اردو ادب کا طالب علم اور ایک ذمہ دار صحافی ہونے کے باعث میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ ارباب اختیار کے غلط فیصلوں کی نشاندہی کروں، میں گزشتہ تیس سال سے اپنی سی اس کوشش کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔ اگر میں کوئی مشاعرہ یا تھیسز پسند شاعر ہوتا تو سب سے پہلے ارم صاحبہ کے جانے پر شادیانے بجاتا ہوا ڈاکٹر احتشام کو مبارک دیتا کہ مجھے ارم صاحبہ کے دور میں شعبہ اردو میں بلایا جانا تو دور کی بات کبھی گھسنے نہیں دیا گیا۔ لیکن بات کسی ذاتی مفاد سے آگے کی ہے اور ویسے بھی میرا شمار جناب اصغر زیدی صاحب کے مداحوں میں ہوتا ہے میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ ڈاکٹر احتشام کی وجہ سے ان کے کردار پر کوئی آنچ آئے یا ان کے کیریئر پر کوئی داغ لگے کیونکہ بات صرف ایک تقرری کی نہیں بلکہ اس تقرری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل اور نقصانات کی ہے۔ میں یہ بھی نہیں چاہوں گا کہ ڈاکٹر احتشام ابھی سے ایسے پھڈوں میں پڑ کر اپنا امیج تباہ کر بیٹھیں۔ اردو زبان و ادب کے تدریسی اداروں خصوصاً اورئینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں تحقیق و تنقید کا جس طرح بُرا حال کیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ سنا ہے وہاں کسی خاتون کی ڈگری کا زبانی امتحان سٹریچر پر ہوا اور جونہی وائیوا ختم ہوا خاتون پھرتی سے صحت یاب ہو کر سٹریچر سے اتری اور چلتی بنی۔ ہر درد ِ دل رکھنے والے علم دوست انسان کی خواہش ہو گی کہ اس سے پہلے کہ یہ کیس عدالت میں پہنچے یا گورنر پنجاب کی ٹیبل پر جائے وی سی صاحب اس غیر قانونی فیصلے کو واپس لیں اور اپنی ساکھ کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا وقار مجروح ہونے سے بچائیں۔

تبصرے بند ہیں.