بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

94

پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیراعظم تھے جو دیانتدار سمجھے جاتے تھے۔ یہ ریمارکس چیف جسٹس آف پاکستان جناب بندیال کے اخبار میں پڑھے۔ کاش وہ لگے ہاتھ جسٹس رستم خان کیانی، جسٹس کارنیلیئس کے علاوہ کسی چیف جسٹس کا نام بھی بتا سکتے۔ بے شک جسٹس دراب پٹیل، جسٹس صمدانی اور جسٹس ملک سعید حسن صاحبان بھی عدلیہ کے ماتھے کا جھومر ہیں مگر جہاں تک سویلین حکمرانوں کا تعلق ہے، سردار ظفراللہ جمالی اگلے وقتوں میں خواجہ ناظم الدین اور دیگران بھی موجود ہیں لیکن جو عدلیہ کے ہتھیار سے قتل ہوئے ان کا نام تو ظاہر ہے نہیں لے سکتے تھے اور نہ ہی کسی ایسے کا جو عدلیہ کے فیصلوں کے گھاٹ اترے۔ جب وکالت کر رہے تھے تو سنا تھا جج بولا نہیں کرتے، عصر حاضر میں ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں جناب فائز عیسیٰ شاید اپنے بڑے بیٹے کے کانووکیشن میں تھے، وہاں پر صحافیوں نے ان سے گفتگو کی کوشش کی مگر جناب فائز عیسیٰ نے زبان کی طرف انگلیوں سے قینچی کا اشارہ کرتے ہوئے سمجھایا کہ بات نہیں کر سکتا۔ جسٹس کیانی صاحب کو شکاگو سے امریکن جوڈیکلچر سوسائٹی کے رکن جسٹس ڈگلس نے فرمائش کی کہ حضرت علیؓ کے اس ہدایت نامے کی ایک نقل بھیج دیں جو انہوں نے حاکم مصر کو جاری کیا تھا۔ جس میں بڑی صراحت سے قاضی کے فرائض اور کردار کا ذکر تھا۔ اور جس کے اقتباسات جسٹس کیانی صاحب نے تقریر میں کہے۔ جب تک قدرت اللہ شہاب اور جسٹس رستم کیانی کے کرداروں کا موازنہ نہیں کیا جاتا، تاریخ درست نہیں ہو سکتی۔ قلمی اور زبانی حق جہاد ہی ہوا کرتا ہے۔ کل رات جناب ارسلان وڑائچ صاحب کے پاس ملاقات کے لیے گیا، جب نظریات، فکر اور سچائی کا قحط ہو تو پھر فکری اور شعوری طور پر متفق دوست کی تلاش ہوا کرتی ہے۔ سید عمران شفقت، گوہر بٹ، امداد سومرو، نور اللہ اور استاد محترم وجاحت مسعود صاحبان نے سابقہ کاذبوں کے دور میں جھوٹ کے سامنے سچ کی دیوار کھڑی کی اور خطرات مول لیے۔ پی ڈی ایم حکومت کی کفایت شعاری کی سفارشات خوش آئند ہیں۔ اگر ان تجاویز پر عمل کیا گیا تو حکمران اشرافیہ، ارکان پارلیمنٹ، ججز، جرنیل، سویلین اور ملٹری افسران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے جو سہولتیں،
مراعات اور دیگر تعیشات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ بہت زیادہ حد تک ختم ہو جائیں گی۔ ان میں سے نمایاں تجاویز یہ ہیں کہ کابینہ کا حجم کم کیا جائے، ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دیے جائیں، سرکاری خزانے سے کسی کو بھی پانچ لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے، سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں (سپیشل یوٹیلیٹی وہیکلز یعنی ایس یو ویز) نہ دی جائیں، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، اعلیٰ عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی سروس والوں سے تمام مراعات، سکیورٹی، معاون سٹاف اور یوٹیلیٹیز واپس لی جائیں، تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں 15 فیصد کم کی جائیں، وفاقی و صوبائی سطح پر تمام وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں ماتحت دفاتر، خودمختار اداروں، صوبائی حکومتوں اور بیرون ملک سفارتخانوں وغیرہ کا موجودہ بجٹ 15 فیصد کم کیا جائے، تمام سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، ججوں اور مسلح افواج کے افسران کو ایک سے زیادہ پلاٹس نہ دیے جائیں، اگر پہلے ہی ایک سے زیادہ پلاٹ الاٹ اور کوئی اضافی زمین الاٹ کی گئی ہے تو اسے منسوخ کر کے نیلامی کرائی جائے، سی پیک کے تحت خصوصی صنعتی زونز کے علاوہ کوئی نیا گرین فیلڈ پروجیکٹ شروع نہ کیا جائے، بھرتیوں پر پابندی عائد کی جائے اور سب کیلئے سکیورٹی پروٹوکول میں کمی کی جائے۔ یہ تجاویز پیش کرتے ہوئے کمیٹی نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ان پر عمل مشکل کام ہو گا لیکن ملک کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص جنہیں سرکاری خزانے سے پیسہ دیا جاتا ہے، کفایت شعاری مہم میں حصہ ڈالیں۔ کمیٹی کے سربراہ ریٹائرڈ سیکرٹری ناصر کھوسہ ہیں۔ کابینہ کا حجم کم کر کے اسے 30 ارکان تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ آپشن دیا گیا ہے کہ اضافی کابینہ ارکان یا معاونین خصوصی (وزیر مملکت یا وزیر کا درجہ) عوامی فلاح کی بنیاد پر کام کر سکتے ہیں۔ بجٹ کو جون 2024ء تک منجمد کیا جائے، اسی عرصہ تک کیلئے ہر طرح کی گاڑیوں کی خریداری بند کی جائے، کسی بھی عہدے، آرگنائزیشن یا کیئر کیلئے مخصوص الاؤنس 25 فیصد کم کیا جائے، نئے انتظامی یونٹس کے قیام پر مکمل پابندی عائد کی جائے، صوابدیدی گرانٹس اور خفیہ سروس فنڈ منجمد کیا جائے، کاغذ کے استعمال سے پاک ماحول اپنایا جائے اور الیکٹرانک پروکیورمنٹ متعارف کرائی جائے اور ساتھ ہی ڈیجیٹل نظام کو فروغ دیا جائے، سفری اور قیام کے اخراجات کم کرنے کیلئے ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے، سپورٹ سروسز کو آؤٹ سورس کیا جائے، غیر ملکی سفر، پوسٹنگ اور دوروں کے حوالے سے تمام تر حقوق (انٹائٹلمنٹ) کے حوالے سے وزارت خزانہ اور کابینہ ڈویژن کے ساتھ مل کر نظرثانی کی جائے، جن پنشن اصلاحات پر خزانہ ڈویژن کام کر رہا ہے انہیں 30 جون 2023 تک حتمی شکل دی جائے،ایسی تمام اسامیاں جو گزشتہ تین سال سے خالی ہیں، انہیں ختم کر دیا جائے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، فنانس ڈویژن اور کابینہ ڈویژن وزارتوں، ڈویژنوں، منسلک اداروں، اتھارٹیز، خود مختار اداروں وغیرہ کی تعداد کو آئینی مینڈیٹ کے مطابق ریشنلائز کریں، انٹرٹینمنٹ بجٹ میں بلاتفریق بھاری کٹوتی کی جائے۔ جاری اور منظور شدہ ترقیاتی پروجیکٹس پر نظرثانی کی جائے اور صرف ایسے پروجیکٹس کو جاری رکھنے دیا جائے جو بے حد ضروری یا ناگزیر نوعیت کے ہیں تاکہ انہیں مکمل کیا جا سکے۔کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں کرنا حکومت کا کام نہیں۔ لہٰذا ریاستی اداروں کاروبار کرنے والے اداروں (سٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز) کو دیگر انتظامات میں منتقل کیا جائے، ریاستی اداروں میں طرز حکمرانی بہتر کی جائے اور اس مقصد کیلئے قانون پر عمل کیا جائے، ایسے ریاستی اداروں کو سبسڈیاں نہ دی جائیں جو عوام کیلئے کچھ اچھا نہیں کر سکتے، قرضوں کے حصول کی درخواستوں کے حوالے سے سخت شرائط و ضوابط نافذ کی جائیں۔ کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ فنانس ڈویژن نے جس سنگل ٹریژری اکاؤنٹ پر کام شروع کیا ہے اس پر فوراً عمل شروع کیا جائے۔ تمام خصوصی اکاؤنٹس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ ان میں بیورو کریسی کے لیے مکانوں، گاڑیوں کا سائز بھی کم کرنا ہو گا۔ ہر بڑی گاڑی والے کی گاڑی روک کر ذرائع انکم اور انکم ٹیکس پوچھیں۔جب قانون موجود ہے تو مہم کیسی، جب قانون موجود ہے تو احتساب کے نعرے کیسے اور حیرت ہو گی کہ اکبری منڈی میں ہڑتال ہو گئی اور حکومت کو اعلان واپس لینا پرا۔ کل بھی اور آج بھی قانون کی حکمرانی ہی واحد راہ نجات ہے۔

تبصرے بند ہیں.