کیا بنے گا غریب کا

19

اانڈین میڈیا کے دن اور رات پاکستان کے معاشی مسائل پہ ڈسکس کرنے پہ گزر رہے ہیں اس وقت وہ دو کام کر رہا ہے ایک بین الاقوامی سطح پہ پاکستان کو پوٹریٹ کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے کہ پاکستان کتنا کمزور ہے دوسرا اپنے شہریوں کو بہلا رہا ہے کہ انڈیا کتنا اُن کے لیے بہتر ہے۔ بین الاقوامی سطح پہ پاکستان کو اس طرح پیش کر کے انڈیا اپنے ملک میں مزید سرمایہ کاری بھی لائے گا کیونکہ انڈیا سرمایہ لا کر اپنے ملک کی کرنسی کو آہستہ آہستہ مضبوط کرنے میں آنے والے وقت میں مزید کامیاب ہو سکتا ہے۔ آئندہ سال تک انڈیا دُنیا کا آبادی کے لحاظ سے پہلا ملک بننے جا رہا ہے مگر وہاں کے حکمرانوں کا چلن ہمارے ملک سے تھوڑا بہتر ہے کیونکہ یہاں 22 کروڑ عوام پہ 85وزراء کی پلٹون، پھر معاون خصوصی کا پورا لشکر، نیچے بیوروکریٹس اور پھر چیف سیکرٹری کیا یہ سب حکومتی خزانے پہ بوجھ نہیں؟ کیا اس بوجھ کو کم نہیں کرنا چاہیے؟ دوسری جانب سب سے زیادہ آبادی والا ملک انڈیا جس کے 73وزیر ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے اگر ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے ملک میں وزراء کی تعداد 59 ہونی چاہیے مگر یہاں تو سوشل میڈیا ہیڈ کی بھی شان ایک وزیر کے مترادف ہے وہ بھی سکیورٹی اور پروٹوکول انہی کے برابر لیتا ہے۔ پہلے تو ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے تنکے کی طرح کانپ رہے تھے کہ کسی طرح آئی ایم ایف کی قسط مل جائے مگر آئی ایم ایف کی سخت شرائط لازماً عام آدمی پہ اثر انداز ہوں گی۔ اس وقت مہنگائی اور بیر وزگاری میں اضافے کے ساتھ آج پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کی صحت، خوراک اور مناسب معیار زندگی کے حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں۔
حقوق انسانی کا بیان اُس وقت آیا جب آئی ایم ایف اور پاکستان کے مذاکرات تکمیلی مراحل کے قریب ہیں۔ یہ ایسا مرحلہ ہے جس میں پاکستان کے کم آمدنی والے شہریوں کے حقوق اور مفادات داؤ پہ ہیں۔ قرض بحالی کے لیے آئی ایم ایف نے جو شرائط پیش کی ہیں اُن میں جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی خاص طور پہ قابل ذکر ہیں جبکہ بجلی کے لائف لائن صارفین کو ٹیرف میں حاصل رعایت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ یہ ایک اضافی بوجھ عوام پہ ٹیکس کی صورت میں پڑ نے والا ہے۔ دوسری جانب حکمران یہ بات کہتے ہیں کہ ہمیں بہت تکلیف ہے تو یہ ڈراما بند کیا جائے کیونکہ اگر تکلیف ہو تو اپنے اثاثے ہی ملک میں لے آئیں تو ملک کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے مگر شاید ان حکمرانوں کو ملک پہ بھروسہ نہیں انہوں نے حکمرانی تو اس ملک میں کرنی ہے مگر ان کا اوڑھنا بچھوڑنا باہر ہے۔
ایک اور تیر جو وزیراعظم صاحب نے مارا وہ نیب ترمیمی بل ہے اگر اس ادارے نے کرپشن زدہ پیسہ ہی ریکور نہیں کرنا تو پھر اس کا بند ہو جانا ہی بنتا ہے کیوں ایک اس ادارے کا اضافی بوجھ ڈالا جا رہا ہے یہ میں بات اس لیے کر رہی ہوں کہ اس کا فائدہ بھی بڑے بڑے ناموں کو ہو گا۔ جس میں نوازشریف، شہباز شریف، ذرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، ظفر گوندل، اسفند یار کاکڑ، اسلم رئیسانی شامل ہیں۔ یہ وہ نام ہیں اگر ان سے ہی پیسہ ریکور کا جائے تب بھی مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے پڑھنے اور دیکھنے میں یہ چند ایک نام ہیں مگر ان سے اتنا پیسہ ریکور ہو سکتا ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہی اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ گئے، مگر ان سے لے گا کون؟
جب یہ الفاظ ادا کرتے ہیں کہ ہمیں عوام کو تکلیف میں دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے تو یقین جانئے اس سے مزاحیہ آج کے دور میں لطیفہ ہی کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ انہی لوگوں نے ملک کی بنیادوں کو آج کھوکھلا کیا اور اگر ان کو تکلیف ہو رہی ہوتی تو کبھی ملک اس پوزیشن میں نہ جاتا۔ آئی ایم ایف کے قرض سے معاشی بحالی نہیں آئے گی، کیونکہ ایک ارب لے کر ہمیں 5 ارب ادا کرنا ہیں اس کے لیے ٹیکسز کی مد میں جتنا ریونیو اکٹھا کریں گے وہ تو پھر سود کی مد میں واپس چلا جائے گا اب آگے حل کیا سوچا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے؟
ایک تو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں آ رہی اس کے لیے نہ تو کوئی حل کیا جا رہا ہے نہ ہی اس جانب کسی کی توجہ ہے۔ کیونکہ ساری توانائی تو کرسی بچاؤ کرپشن چھپاؤ کی جانب لگی ہوئی ہے۔ ڈیم بنانے یا ترقیاتی کاموں کی جانب کسی کی توجہ نہیں ہے۔ بجلی ہماری فرنس آئل سے بن رہی ہے اور اس کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کے بلوں میں اضافہ تو ہو گا وہ ممالک جنہوں نے ترقی کرنا ہو اور اپنے عوام کو سہولیات دینا ہوں اُن ممالک کے لیے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے۔ مگر یہاں ملک صرف آئی ایم ایف کے کندھوں پہ چلایا جا رہا ہے اگر پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنا ہے تو فوری طور پہ ڈیم سے سستی بجلی بنائی جائے، ملک میں انویسٹمنٹ لائی جائے اور انڈسٹری پہ توجہ دی جائے ورنہ اس ملک کا مستقبل تاریک ہے۔ یہاں عوام ایک آٹے کے تھیلے کے لیے کسی کو بھی مار ڈالیں گے کیونکہ بھوک بہت ظالم ہوتی ہے جب اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو انسان بھی ایک وحشی درندہ یا آدم خور ہی بن جاتا ہے۔ حکمرانوں کو ان چند پہلوؤں پر لازماً سوچنا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.