عالمی اقتصادی فورم کا انتباہ

18

خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والے شہری کو کیا معلوم کہ وہ جس ریاست کا باسی ہے، اس میں فطرت نے چاروں موسم عطا کئے ہیں، یہ وسیع ریگستان رکھتا ہے، سنگلاخ چٹانیں، چٹیل اور فلک بوس پہاڑ اسکی بڑی پہچان ہیں جو کوہ پیماﺅں کے لئے خاص رغبت رکھتے ہیں، پانچ دریاﺅں کی سرزمین دنیا کا بہترین نہری اور نظام آبپاشی رکھتی ہے، لہلاتے کھیت،سر سبز شاداب میدان آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں، گہرے پانیوں پر مشتمل بندر گاہیں اس کا اثاثہ ہیں، کوئلہ، جپسم، تانبا،کرومائیٹ،سنگ مرمر اور دوسری معدنیات قدرت کی عطا کردہ ہیں، نوجوانوں کی غالب آبادی اسکی بڑی افرادی قوت ہے، یہ دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے ،جس کے بڑے شہر چھوٹی ریاستوں سے زیادہ آبادی رکھتے ہیں، دودھ پیدا کرنے والا یہ دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے، زراعت،صنعت کا ملکی معاشی ترقی میں کلیدی کردار رہا ہے، ایک ایٹمی قوت ہونا اسکی اضافی خوبی ہے۔
یہ ریاست اپنا الگ آئین رکھتی ہے جس میں تمام قومی اداروں کے حقوق متعین ہیں، اسکی پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے، عدلیہ اور انتظامیہ کے ادارے الگ الگ ہیں، کسی بھی ناگہانی صورت میں اسکی قوم دو قالب یک جان ہو جاتی ہے۔ایک منظم فوج ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت چوکس رہتی ہے۔
اس کا ماضی درخشاں بھی رہا ہے، اس کی کرنسی کی قدر ہمسایہ ممالک سے زیادہ ہوا کرتا تھی، بہت سے ترقی پذیر ممالک نے اس کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ جات کو اپنا کرترقی کا سنگ میل عبور کیا ہے،بہت سی خوبیوں کی حامل اس ریاست کے شہری کو اب یہ باتیں بتانا انتہائی محال ہے جو اس وقت آٹے کی لائین میں لگ کر اپنے بچوں کے رزق کا اہتمام کر رہا ہے، بے گھر افراد کو کیسے بتایا جائے کہ چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی ارباب اختیار نے اپنے سر لی ہوئی ہے جو اس آئین میں رقم ہے جس کو تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر منظور کیا تھا، سکول سے باہر بچوں کے والدین کو کون بتائے کہ ان کے بچوں کو پڑھانا بھی سرکار کا درد سر ہے، عوام کے جان مال،عزت آبرو کا تحفظ بھی اسی آئین میں درج ہے جس کی وفاداری کا حلف منتخب نمائیندے اٹھاتے ہیں۔ بے روزگار نوجوان یہ بتانا کس قدر مشکل ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا، میعار، اہلیت، میرٹ پر اداروں میں تعلیم یافتہ افراد کا تقرر کرنا بھی حکومت کا کام ہے۔ ، لوڈشیڈنگ
کے عذاب میں مبتلا شہری کو یہ سمجھانا جان جوکھوں کا کام ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود سستی بجلی پیدا کر نے میں سرکار ناکام رہی ہے جس کی سزا معاشی بوجھ کی صورت میں لوگ اٹھا رہے ہیں۔
کیا یہ طرفہ تماشا نہیں جو سال ہا سال سے مسند اقتدار پر برا جمان رہے ہیں، وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ ہر کسی کے آگے ہاتھ کب تک پھیلاتے رہیں گے ہمیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا پڑے گا، چند مستند بیانئے تو ہر سرکار کا خاصہ رہے ہیں، جیسا کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے، خود انحصاری ہماری منزل ہے، قرضوں سے نجات کا وقت آگیا ہے، جلد یہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گا، کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا، قوم کچھ دیر صبر کرے اچھا وقت آنے والا ہے، وہ دن دور نہیں جب ہماری پہچان ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر ہوگی، ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، کشمیر پالیسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، ملک دشمن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اس بار قوم کو قربانی دیناہو گی، اس نوع کے کلمات سنتے سنتے ہماری تیسری نسل جوان ہو چکی ہے، مگر 22 کروڑعوام کے مسائل کچھ اور ہیں پالیسی اور فیصلہ سازوں کے ارادے یکسر مختلف ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی ایک رپورٹ میں تو خطرے کی گنٹھی بجا دی ہے دس بڑے چیلنجز کی نشان دہی کی ہے ،جس پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔گلوبل رسک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائبر سیکورٹی،دہشت گردی کے حملے، مہنگائی، معاشی بحران، علاقائی تنازعات، پانی کا انفراسٹرکچر، ماحولیات کی تبدیلی، معاشی ترقی کی سست روی اور اس کے نتیجہ میںافراط زر کے باعث اشیاءکے مہنگا ہونے کی بدولت بھوک میں اضافہ، قرضوں کا بحران یہ وہ قابل ذکر خطرات ہیں جن سے نبردآزماءہونے کے لئے ایک بالغ نظر لیڈر شپ درکار ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ جیو اکنامک Tensionتوانائی اورفوڈ بحران مذکورہ خطرات کے علاوہ ہیں۔ اگلے تین برسوں میں 73 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں ریاست کو کرنی ہیں اس کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے، قرض کی مے پینے پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کے ذمہ دار ن نے موجودہ صورت حال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2025 تک متوقع بحرانوں سے نکلنے کا کوئی روڈ میپ نہیں ہیں نہ ہی ان خدشات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائی جارہی ہیں،سب سے اہم ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہونے جارہا ہے مگر اسکی کسی کو کوئی فکر نہیں، پاکستان کی سیکورٹی پالیسی بھارت کی مرکزیت اور مذہب کی ترجیحات کے مطابق ہے رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔
ارض وطن کا جغرافیہ بڑی اہمیت کا حامل ہے یہ جنوبی اور وسطی ایشیاءمشرق وسطیٰ کے مابین پل کا کردار ادا کرتا ہے،اس لئے ہمسایہ ممالک کے مسائل اور بگڑتی ہوئے معاشی حالات ہل من مذید کی صورت حال پیدا کر دیں گے۔ معاشی ناقدین کا کہنا ہے کہ سرکار اس سنگینی کے باوجود سیاست سیاست ہی کھیل رہی ہے، غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے، سرمایہ کاری بڑھانے میں اسکی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی چشم کشا رپورٹ اس بات کی غماز ہے کہ موجودہ حالات کی ذمہ داری کسی ایک سرکار پر عائد نہیں کی جاسکتی تاہم یہ اعتراف ہے کہ باوردی اور سویلین دونوں ادوار کی قیادتیں اس جرم میں برابر کی شریک ہیں، عوام کی حالت زار میں بڑا کردار اشرافیہ، عدلیہ، انتظامیہ کا بھی ہے، عوام کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ووٹ کی طاقت کے غلط استعمال نے انھیں کو یہ دن دکھائے ہیں۔
اِن حالات میں قومی سطح پر سیاسی قائدین کا سیاسی مسائل کے حل کے لئے مل کر نہ بیٹھنا اور میثاق معیشت نہ کرنا،بد حال عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کا سفر بھی ان کے غموں میں اضافہ کا باعث بن رہاہے۔عالمی معاشی اداروں سے قرض لینے کی روایت بڑی پرانی ہے ،اسکی وساطت سے ریاستوں کا اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا بھی تاریخ کا حصہ ہے مگر ہماری قیادتوں نے بھاری بھر وفود کے ہمراہ مالی امداد کے لئے کشکول اٹھانے کا وطیر ہ ہی ا پنا لیا ہے جو قومی حمیت کے خلاف ہی نہیں بلکہ ہماری خود مختاری کے بھی برعکس ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کے ذمہ داران دہائی دے رہے ہیں کہ ان خطرات کا ادراک کیا جائے جو اگلے تین سالوں میں متوقع ہیں، محض ایک دوسرے پر ناکامی کا ملبہ ڈالنے سے عوام کی حالت سدھرنے والی نہیں۔وسائل سے مالا مال ریاست کی معاشی بدحالی کے پیچھے ایسی بد نیتی ہے جو ارباب اختیار کے بڑھتے ہوئے اثاثوں اور عوام کے دکھوں میں اضافہ کا موجب بن رہی ہے جس کا منطقی انجام خونی انقلاب بھی ہو سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.