دنیا میں لوگ اگر بیمار ہی نہ ہوں اور ہر انسان صحت مند رہے تو کتنا اچھا ہو۔ کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ اس جیسی اچھی اور خوشی کی کوئی بات ہی نہیں۔ فرض کریں ایسا ممکن ہوجائے تو دنیا بھر کے ڈاکٹر تو گئے کام سے۔ بلکہ صرف ڈاکٹر ہی نہیں فارمیسیوں سے لیکر ادویات ساز کمپنیاں بالکل اسی طرح بند ہونا شروع ہوجائیں گی جس طرح مہنگائی سے آج کل ہماری بولتی بند ہوچکی ہے۔ الٹراساونڈ اور ایکسرے مشینوں کا کام بھی ٹھپ ہوجائے گا۔ ٹیسٹ کرنے والی چِپوں کی مینوفیکچرنگ اور لیبارٹریاں فارغ ہوجائیں گی۔ ادویات کا پیکجنگ میٹیرل تیار کرنے والی فیکٹریوں پر تالے لگ جائیں گے۔ یعنی صرف لوگوں کے صحت مند رہنے سے ہزار منافع بخش کام ٹھپ ہاجائے گا۔ ہر چیز فطرت کے مطابق توازن میں رہے اور عدل کو پس پشت نہ ڈالا جائے تو علاج معالجہ عبادت اور ایک عظیم انسانی خدمت ہے لیکن جب یہ سوچ پیدا ہوجائے اور منصوبے بننے لگیں کہ بیماری سے تعلق رکھنے والے یہ ہزار طرح کے کاروبار زیادہ سے زیادہ منافع بخش کیسے بنیں گے۔ اس کاجواب نہایت سادہ ہے کہ جب زیادہ سے زیادہ لوگ بیمار ہونگے اور مسلسل ہوتے رہا کریں گے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک ڈسپرین سے لیکر بڑے بڑے تجارتی ہسپتالوں تک کا بزنس جس کا تعلق انسان کے بیمار ہونے سے وابستہ ہے ایک ایک ایک سیکنڈ اور منٹ میں اربوں کھربوں کے منافعوں پہ قائم ہے۔ اگر ہمیں یہ اندازہ ہوجائے کہ یہ منافع بخش کاروبار اپنے گاہک پیدا کرنے کے لیے کیا کیا کچھ کرتا ہے تو ہم انسان ہونے کا دعویٰ کرنا چھوڑ دیں۔ ادویہ ساز بین الاقوامی کمپنیاں لوکل کمپنیوں کو ان کی اپنی حکومتوں کے ہاتھوں کس طرح نکیل ڈال کے رکھتی ہیں اور دوائیوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی کمیٹیوں کو کس طرح کنٹرول کیا
جاتا ہے یہ ایک الگ داستان ِ ایمان فروشاں ہے۔
اس سے بھی زیادہ گھناونا کاروبار کرنسی کا ہے۔ جس کے لیے صرف اتنا سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ کرنسی کے اتار چڑھاو میں کتنے لوگ کچھ کیے بغیر یکدم ارب پتی کیسے ہوجاتے ہیں اور عام عوام گھروں میں بیٹھے ل±ٹ کیسے جاتے ہیں۔ خون پسینے کی محنت سے کمائے گئے تھوڑے تھوڑے پیسے اور ٹیکسوں کی ماری ہوئی آمدنی آن کی آن میں گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ روپے کی قدر گرنے سے اشیائے ضرورت کی قیمت میں روح فرسا اضافہ ایک ایسے اجتماعی ظلم اور بربریت کو جنم دیتا ہے جو ایک معمولی سے مزدور سے لیکر بڑے بڑے کاروباری ادارے کی کمر توڑ کے رکھ دیتا ہے تو دوسری طرف ڈالروں میں لیے گئے ملکی قرضے سود سمیت کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ اس ساری واردات کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ امریکہ نے دنیا پر پیٹرول کی خرید و فروخت ڈالر میں کرنے کا جبر مسلط کیوں کر رکھا ہے۔ کرنسی کی ایکسپلائٹیشن ان گھناونے جرائم میں سے ہے جس کے خلاف دنیا کا کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا جبکہ اربوں انسانوں اور غریب ملکوں کے معاشی نصیبوں کی بربادی کا باعث بننے والا یہ بین الاقوامی دھندہ پوری رفتار سے جاری و ساری ہے۔
اس مختصر تمہید کا مقصد آئی ایم ایف جیسے ادارے کی نوعیت اور مقاصد کو سمجھنا ہے۔ دنیا میں تین معاشی نظام ہیں جن میں سے ایک اسلامک ، دوسرا اشتراکی یعنی سوشلسٹ اکنامک سسٹم اور تیسرا کیپیٹلزم یا سرمایہ داری نظام۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت کسی اکا دکا ملک کو چھوڑ کر ساری دنیا میں سرمایہ داری نظام رائج ہے۔ جس میں دنیا کے سو امیر ترین خاندانوں کے پاس دنیا کا تقریباً ستر ، اسی فیصد سرمایہ ہے اور باقی تمام دنیا کے پاس صرف بیس تیس فیصد۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پرائیویٹائزیشن کو ہمارے ہاں بہت سنہری بنا کے پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ اتنا بڑا ناسور ہے جو چند افراد کے ہاتھوں میں لاکھوں اور کروڑوں غریب عوام کی معاشی ڈوریاں تھما دیتا ہے۔ عام آدمی دن رات محنت کرکے بھی مشکلات سے باہر نہیں نکل پاتا جبکہ سرمایہ دار محنت کیے بغیر منافع کے پہاڑ کماتا رہتا ہے۔ دوسرا اہم ج±ز سود پر قرضوں کا کاروبار ہے جس میں جو ایک بار جکڑا گیا پھر مرتے دم تک اس کے جال میں پھنسا رہتا ہے۔ ہمارے ملک کے تناظر میں آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی دردناک صورتحال کا اندازہ ہم سب کو ہے لیکن بڑے بڑے بکاﺅ دانشور پورے دلائل کے ساتھ حکومتوں کو آئی ایم ایف کی تمام عوام دشمن شرائط مان کر فوری طور آداب بجا لانے کے مشورے دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی حکومت پھر بھی آئی ایم ایف کے جال سے ملک و قوم کو نکال لے جانا چاہتی ہے یا عوام دشمن شرائط ماننے سے انکار کرتی ہے تو رجیم چینج آپریشنز وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جرائم پیشہ سیاستدانوں کے کیسز کو اچھال کے پہلے قابو کیا جاتا ہے ان کو پھانسی کے پھندے دکھا کے بلیک میل کیا جاتا ہے پھر قرض مخالف حکومت کو گرانے کی شرط پر کیسز معاف کرنے ، اقتدار میں واپس لانے کا لالچ دے کر ملک کی سیاسی و معاشی کمر توڑی جاتی ہے اور پھر بتایا جاتا ہے کہ جب تک ملک کے عوام کی گردن دبوچنے والی شرائط نہیں مانوں گے تو ملک کو دیولیہ قرار دے کر تباہ و برباد کردیا جائے گا۔ کیپٹلزم اپنے بنیادی اصولوں میں اتنا ظالمانہ نظر نہیں آتا جتنا عملی طور پر ثابت ہوا ہے۔ جب مزید سے مزید منافع کی حرص کہیں بھی جا کے رکتی نہیں تو ادویات ساز کمپنیاں بیماریاں پیدا کرنے اور سود پر قرضے دینے والے غربت پیدا کرنے کے ایجنڈے پر کام کرنے لگتے ہیں اور وہ وہ کچھ کیا جاتا ہے جو ہم نے پچھلے ایک سال سے پاکستان میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جانوں پر بھگتا ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.