افضل گورو کی شہادت پر کشمیری عوام کے جذبات

3

بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے فرضی کیس میںکشمیری نوجوان محمد افضل گورو کو9فروری 2013 نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں انتہائی خفیہ طور پر پھانسی دیدی گئی اور انکی میت کو ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے تہاڑ جیل کے اندر ہی انکے سیل میں دفنا دیا گیا۔ جیل حکام کے مطابق افضل گورو اس وقت اداس ہونے کے بجائے پرسکون تھے اور خوش اور صحتمند تھے۔
افضل گورو کی پھانسی کیخلاف کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماوں نے اس عدالتی قتل کیخلاف مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی کال دی تھی۔ متعدد حریت لیڈران کو نظربند کردیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ، کیبل اور فون کی سہولت بھی معطل کردی گئی تھی۔ مظاہرین کو روکنے کیلئے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکاروں کو حساس مقامات پر تعینات کیا گیا تھا اور شہریوں کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی عائد تھی۔ اسکے باوجود حبہ کدل کے علاقے میں نوجوانوں نے گھروں سے باہر نکل کر نعرے بازی کی جبکہ پلوامہ، گاندربل، سوپور، اسلام آباد، بارہ مولہ، کولگام، شوپیاں اور مقبوضہ وادی کے دیگر علاقوں میں بھارتی حکومت کیخلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اور اس دوران پوری وادی آزادی ،آزادی کے نعروں سے گونجتی رہی۔
افضل گورو کو جو نئی دہلی میں ایم بی بی ایس کے طالب علم تھے اور اپنی تعلیم کے تیسرے سال میں تھے، 13 دسمبر 2001ءکو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیکر حراست میں لیا گیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس کیس میں انہیں 2004ءمیں پھانسی کی سزا سنائی اور 20 اکتوبر 2006ءکو انہیں پھانسی دینا طے ہوا تاہم انکی اہلیہ تبسم کی رحم کی اپیل پر اسوقت کے بھارتی صدر نے انکی سزا پر عملدرآمد معطل کردیا
جبکہ16 نومبر کو بھارتی صدر نے افضل گورو کی رحم کی درخواست مسترد کرکے وزارت داخلہ کو واپس بھجوا دی۔پھانسی والے دن اچانک انہیں صبح 5 بجے جگا کر پھانسی دینے کی اطلاع دی گئی اور صبح 8 بجے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
پاکستان میں بھی افضل گورو کی پھانسی پر سخت ردعمل سامنے آ یا۔ اس سلسلہ میں کشمیری تنظیموں اور متعدد دینی جماعتوں کی جانب سے اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور کہا گیا کہ آج سب سے بڑی نام نہاد سیکولر ریاست کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ۔ مظاہرین کے بقول افضل گورو کو پھانسی پر لٹکانا غیر منصفانہ اقدام ہی نہیں، پوری کشمیری قوم پر حملے کے بھی مترادف تھا۔
بھارتی پارلیمنٹ پر 13 دسمبر 2001ءکے حملے کو بھارتی تاریخ کے متنازعہ ترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس روز جن پانچ افراد نے بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بولا، ان تمام کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ہلاک کردیا تھا جبکہ اس حملے میں ایک مالی اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا تھا۔ بھارت نے اس حملے کا الزام عسکریت پسند تنظیم جیش محمد پر عائد کیا اور کہا کہ اس تنظیم کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے جبکہ بعدازاں افضل گورو کو اس حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیکر گرفتار کرلیا گیا جن کا شمار جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرگرم کارکنوں میں ہوتا تھا۔ اس پس منظر میں ہی پوری دنیا پریہ حقیقت منکشف ہوچکی تھی کہ افضل گورو کو ناجائز طور پر اس حملہ میں ملوث کیا گیا ہے جبکہ کشمیری عوام افضل گورو کی پھانسی کو کشمیر کی آزادی کی تحریک کو دبانے کے بدترین ریاستی ہتھکنڈے سے تعبیر کررہے ہیں اور اس زیادتی پر آزاد کشمیر ہی نہیں، مقبوضہ کشمیر کے عوام ابھی تک بھی سخت غم و غصہ کی کیفیت میں ہیں۔ افضل گورو کی پھانسی سے کشمیری عوام میں اپنی آزادی کی جدوجہد کو فیصلہ کن مرحلے تک لے جانے کیلئے ایک نیا جذبہ پیدا ہوگیا ۔
افضل گورو کے معاملے میں کئی رخ ایسے ہیں جن پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ افضل گورو کو اس کیس میں اپنے دفاع کیلئے کماحقہ وکیل آخر کیوں فراہم نہ کیا گیا؟ کیس کے آغاز میں ہی اگر قانونی مشیر میسر آ جاتا تو صورتحال قدرے مختلف ہوسکتی تھی۔ دوسری بات یہ کہ افضل گورو کے خلاف مقدمہ واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر چلایا جاتا رہا اور اسی پر فیصلہ سنادیا گیا۔ حالانکہ افضل کا براہِ راست حملوں میں ملوث ہونا یا معاونت فراہم کرنا کہیں بھی ثابت نہ ہو پایا تھا۔ فیصلے میں باقاعدہ لکھا گیا کہ یہ سزا مکمل قانونی شہادتوں کی غیر موجودگی میں صادر کی گئی ہے بلکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے سنائی گئی۔ کیا ایک بےگناہ کا لہو اتنا غیر اہم ہے کہ عوامی جذبات کی تسکین کیلئے اسے بہا دیا جائے؟ کیا افضل گورو بھارتیوں کے لئے مسیحا بن کے آیا تھا کہ اسے قوم کے گناہ دھونے کے لئے یوں تختہ دار پر چڑھا دیا جائے؟
افضل گورو کو آخر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع کیوں فراہم نہیں کیا گیا؟ اس سوال کے بہرکیف بھارت کی عدلیہ، سرکار اور عوام سب جوابدہ ہیں۔ گرفتاری کے بعد چھ ماہ تک اسے کوئی وکیل فراہم نہ کیا جانا اور پھر تشدد کے ذریعے اعترافی بیان وکیل کی غیر موجودگی میں قلم بند کرنا بھی بھارت کی اعلی عدلیہ کے طریقہ عدل پہ سوالیہ نشان کھڑے کرنے کو کافی ہیں۔
افضل گورو کیس میں جس عجلت کا مظاہرہ بھارت نے کیا اس کی مثال ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ حملہ کیس میں جون 2002 میں فردِ جرم عائد کیے جانے کے صرف 197 دنوں بعد اسے فیصلے کی صورت موت کا پروانہ تھما دیا گیا۔ اس کیس کی تحقیقات پہ مامور دہلی کے سپیشل پولیس سیل نے 17 دنوں میں تحقیقات مکمل کر کے بھی حیران کن پھرتی کا مظاہرہ کیا۔

تبصرے بند ہیں.