کیا فواد چودھری جیل بھرو تحریک کا حصہ بنیں گے؟

30

سیاست میں کرپشن، دھاندلی، غنڈہ گردی وغیرہ کی باتیں تو ہم جب سے ہوش سنبھالہ تب سے سن رہے لیکن گالی گلوچ اور الزام تراشی، ناپختہ پن اور ہر بات پریو ٹرن کی روایات کچھ نئی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ویسے تو سیاست میں ویگر بے شمار وجوہات کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا تمام ہی نقاط کے بانی تصور کیے جاتے ہیںلیکن جب سے انہوں نے باقاعدہ طور پر اقتدار کی سیاست شروع کی ہے وہ ان تمام معاملات میں کچھ زیادہ ہی سرگرم ہو گئے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہم نے دیکھا کہ جب خان صاحب کی حکومت کو جمہوری طریقہ سے تحریک عدم اعتماد پاس کر کے ختم کیا گیا تو انہوں نے جمہوری عمل کا حصہ بنے رہنے کے بجائے قومی اسمبلی سے مستعفی ہو جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ مذکورہ استعفوں کے منظور کیے جانے میں تاخیر پر خان صاحب اور ان کی پارٹی مختلف طریقوں سے احتجاج بھی کرتے رہے بیان بازی بھی کرتے رہے اور الزام تراشی بھی کرتے رہے۔ پھر جب یہ استعفے منظور کیے گئے تو ہمارے خان صاحب اس پر بھی معترض ہو گئے۔ استعفے چونکہ مرحلہ وار منظور کیے گئے تھے اس لیے خان صاحب کے ساتھیوں نے آخری مرحلہ کے 43 استعفوں کے منظور کیے جانے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ۔ اور ہماری معزز عدالت عالیہ نے اس سلسلہ میں ایک حکم امتنائی بھی جاری کر دیا کیونکہ اس سلسلہ میں دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مذکورہ 43 اراکین قومی اسمبلی نے قبول کیے جانے سے قبل ہی اپنے استعفے واپس لے لیے تھے۔
ویسے تو عمران خان صاحب ایک جمہوریت پسند ہونے کے دعویدار ہیں لیکن ان کے حالیہ اقدامات ان کی اصل سوچ اور رویوں کے آئینہ دار ہیں۔ سب سے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دیے، پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی کوشش کی، پھر دو صوبوں کی اسمبلیا ں تحلیل کروا دیں اوراب چند روز قبل جیل بھرو تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ اب اللہ جانے کسی سمجھدار نے خان صاحب کو یہ مشورہ دیا ہے یا یہ ان کے اپنے ہی ذہن کی اخترع ہے ۔ جو بھی ہے لیکن میرے خیال میں خان صاحب کو کم از کم اب تو اس قسم کی بیان بازی سے قبل کچھ سوچ لیناچاہیے۔
بیشتر ماہرین قانون اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جیل بھرو تحریک کی کال دینا دراصل سول نافرمانی کا بگل بجانے کے مترادف ہے ۔ ویسے تو سول نافرمانی کی کال دینا خان صاحب کے لیے کوئی نئی بات نہیں ۔ لیکن موجودہ حالات میں جس طرح وہ پہلے سے مختلف قسم کے الزامات اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اس صورتحال میں کسی بھی قسم کی نئی پینترہ بازی خان صاحب کی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہے۔ گزشتہ روز ملتان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفتر میں ہلڑ بازی اور بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں میں تصادم کے بعد کچھ مطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے پولیس نے عمران خان صاحب کا ایک کارندہ خاص اور قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیف وہب، عامر ڈوگر، کے ڈیرہ پر چھاپہ مارا۔ پولیس جب مطلوبہ افراد کو گرفتار کر کے لے جانے لگی تو
ڈوگر صاحب نے ایک سیاسی قسم کا نعرہ مار دیا کہ، ’اگر میرے کارکنوں کو گرفتار کرنا ہے تو مجھے بھی گرفتار کر لو‘۔ شائد ڈوگر صاحب کا خیال تھا کہ اس قسم کی نعرہ بازی سے ہو گا تو کچھ نہیں لیکن وہ اپنے کارکنوں میں ہیرو بن جائیں گے۔ لیکن پولیس والے بھی جانے کس موڈ میں تھے کہ انہوں نے ڈوگر صاحب کی فرمائش کو فوراً پورا کر دیا اور ناچار ڈوگر صاحب کو پولیس کے ہمراہ ہونا پڑا۔
اس سارے معاملہ میں سابق رکن قومی اسمبلی نے خود ہی گرفتاری کی پیشکش کی، خود ہی چلتے ہوئے گاڑی میں جا کر بیٹھے لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ خود اور ان کے ساتھی اسی بات پر ناصرف معترض ہو گئے بلکہ ٹولیوں کی شکل میں شہر میں مظاہرے بھی شروع کر دیے۔
چونکہ ملتان پولیس کو ڈوگر صاحب کی گرفتاری مطلوب ہی نہ تھی اور انہیں تو ایک فرائشی پروگرام کے تحت حراست میں لیا گیا ہے اس لیے ایک آدھ دن میں ڈوگر صاحب کی تو واپسی ہو ہی جائے گی لیکن ان کی گرفتاری کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے مختلف راہنماوں کے بیانات بھی خاصے مضحکہ خیز ہیں اور ان سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ پارٹی کس قدر بکھر چکی ہے اور اس میں کوارڈینیشن کا کس قدر فقدان ہے۔ عامر ڈوگر صاحب کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ایک راہنما فرخ حبیب صاحب فرماتے ہیں کہ،’ پی ڈی ایم قیادت کو گندی سیاست ترک کر کے عامر ڈوگر کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے‘۔ اسی پارٹی کے ایک اور راہنما اور حال ہی میں جیل یاترہ سے لوٹنے والے فواد چوہدری صاحب صوتحال کو کچھ اور ہی رنگ دینے کے چکر میں فرماتے ہیں کہ ، عامر ڈوگر کا گرفتاری پیش کرنا جیل بھرو تحریک کا حصہ ہے ۔
اب عجب کنفیوژن پیدا ہو چکی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دونوں راہنماوںمیں کس کی بات کو پارٹی موقف تصور کیا جائے۔ اگر فرخ حبیب صاحب کی بات کو درست مانتے ہیں پھر تو اگر ڈوگر صاحب کی رہائی عمل میں آ جائے تو پھر تو کوئی پرابلم نہیں ۔ سب اچھا اچھا ہے۔ لیکن فواد چوہدری صاحب کے بیان سے لگتا ہے کہ وہ ڈوگر صاحب کے ساتھ کوئی پرانی رنجش سیٹل کرنے کے چکر میں ہیں۔ ایک طرف تو عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ اگر نوے روز میں خیبر پختونخواہ اسمبلی کے الیکشن نہ ہوئے تو وہ جیل بھرو تحریک چلائیں گے یعنی اس سلسلہ میں کوئی فوری ایکشن کا کوئی پروگرام نہیں۔ لیکن کسی مستقبل کے پروگرام کے لیے رضا کاروں کی فہرستیں مرتب کی جا رہی ہیں۔ تو دوسری طرف چوہدری صاحب نے عامر ڈوگر کی گرفتاری کو جیل بھرو تحریک کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ یعنی اب ڈوگر صاحب ضمانت نہیں کروائیں گے اور لمبے عرصہ تک سرکاری مہمان ہی رہیں گے۔
ویسے اگر بقول فواد چوہدری صاحب کے جیل بھرو تحریک شروع ہو چکی ہے تو کیا برا ہے کہ وہ بھی اپنی ضمانت واپس لے کر اس تحریک کا حصہ بن جائیں اور اس وقت تک جیل میں ہی بند رہیں جب تک ان کی پارٹی کے سو فیصد مطالبات تسلیم نہ ہو جائیں۔

تبصرے بند ہیں.