چڑھتے سورج کو سلام کرنا، میں یہ نہیں کہتا میرے لئے ناممکن ہوتا ہے، مْشکل البتہ ضرور ہوتا ہے، مگر کچھ سورج ہمیشہ چڑھے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، وہ غروب نہیں ہوتے، جیسے بطور آئی جی پنجاب صاحبزادہ رؤف یا جاوید اقبال کی عظمتوں کو آج بھی ہم سلام کرتے ہیں، یہ لوگ ہر طرح کی دْنیا داری سے بے نیاز تھے، جاوید اقبال صاحب کا کچھ عرصہ پہلے مجھے فون آیا کہنے لگے”مجھے حیرت ہوتی ہے، میں گمنام سا اک شخص ہوں آپ اپنی تحریروں میں کیسے مجھے یاد رکھتے ہیں؟“میں نے عرض کیا”یہ اللہ کا مجھ پر خاص کرم ہے جو لوگ اپنی عزت آبرو کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور اس راستے میں مالی و ذاتی مفادات کو قْربان کرنا جانتے ہیں میں اْنہیں کبھی نہیں بْھولتا، نہ ہی ایسے لوگوں کو ہمیں بْھولنا چاہئے، یہ معاشرہ تباہ ہی اسی لئے ہوا اپنے بڑے لوگوں کو اور اْن کے بڑے کاموں کو ہم بْھول جاتے ہیں۔۔ اگلے روز دو لوگ مجھے بہت یاد آ رہے تھے ایک سابق نگران وزیراعظم ملک معراج خالد دوسرے سابق آئی جی چودھری سردار محمد، میں اْن کی قبروں پر چلے گیا، وہاں جا کر ایک احساس مجھے یہ ہوا اپنے ان بزرگوں کی قبروں پر مجھے آتے رہنا چاہئے۔۔ حسن نثار صاحب نے لکھا تھا ”انسان تب نہیں مرتا جب اْس کا دم نکلتا ہے، انسان تب بھی نہیں مرتا جب اْسے کفن پہنایا جاتا ہے، نہ تب مرتا ہے جب اْسے دفنایا جاتا ہے، انسان تب مرتا ہے جب اْس کی قبر پر گھاس اْگنے لگتی ہے جب اْس پر قبر پر حاضری دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔۔ عامر ذوالفقار خان کو دو چار روز پہلے آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا، یہ میری ذاتی خوشی اس اعتبار سے بھی ہے اْنہوں نے ہمیشہ میرے کہے ہوئے کی لاج رکھی، میں محبت میں اْن کی برابری نہیں کر سکتا، دعا ہے اللہ اْنہیں کامیاب فرمائے، جس منصب پر اب وہ تعینات ہوئے اور جن حالات میں ہوئے یہ”پھولوں کی سیج“ نہیں ”کانٹوں کا گْچھا“ ہے، سازش اور حسد کی آگ ہر وقت آپ کے ارد گرد دہکتی ہے، اْس کے سینک میں آپ کو کام کرنا پڑتا ہے۔۔ پھولوں کی سیج یہ صرف اْن کے لئے ہوتی ہے جو صرف ایک کام کرتے ہیں سیاسی و اصلی حکمرانوں کو ہر حال میں راضی رکھ کے اپنے ذاتی و مالی اْلو سیدھے کرتے ہیں، ایسے اْلو کے پٹھوں کو اپنی عزت کا کوئی پاس ہوتا ہے نہ اپنے منصب کا ہوتا ہے۔۔ ماضی میں کئی مال پسند آئی جیز نے بڑے بڑے بنگلے بنائے جو، اب”بْھوت بنگلے“ بنے ہوئے ہیں، کوئی اْن سے ملنے نہیں جاتا نہ وہ خود کہیں اس لئے جاتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہٹو بچو کی جن آوازوں کی اْنہیں عادت پڑی ہوتی ہے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کہیں سْنائی نہیں دیتیں، اگلے روز شادی کی ایک تقریب میں اپنے زمانے کے ایک انتہائی مْتکبر، ریٹائرڈ پولیس افسر کو ایک کونے میں کھڑے میں نے دیکھا، جیسے وہ اس آواز کا مْنتظر ہو ”روٹی کْھل گئی جے“ اور ڈشوں سے وہ ڈھکنے اْٹھانے لگ جائے۔۔ اْن کے مقابلے میں جو اعلیٰ مناصب پر فائز ہو کر عاجزی اختیار کرتے ہیں، خلق خدا کی خدمت بغیر کسی لالچ کے کرتے ہیں وہ لوگوں کی دعاؤں اور محبتوں سے کبھی محروم نہیں ہوتے۔۔ عامر ذوالفقار خان بطور آئی جی پنجاب کس کے لئے پسندیدہ تھے کس کے لئے نہیں تھے؟ یہ کہانی میں خوب جانتا ہوں، پنجاب حکومت نے جو سمری آئی جی پنجاب لگانے کے لئے وفاقی حکومت کو بھجوائی تھی اْس میں اْن کا نام تیسرے یعنی آخری نمبر پر تھا، کسی عہدے کے لئے جب کوئی سمری وغیرہ بھجوائی جاتی ہے اْس میں تیسرے یا آخری نام کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہوتا ہے اس کی منظوری کا کوئی چانس نہیں، پہلے نام پر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو دوسرا نام لازمی فائنل کر لیا جاتا ہے، قدرت نے عامر ذوالفقار کے لئے ایسے حالات پیدا کر دئیے اْن کے اْوپر جو دو نام سمری میں تھے، اور سمری سے باہر جو لوگ اس عہدے کے حصول کے لئے جائز ناجائز تگ و دو میں تھے سب فارغ ہوگئے، ممکن ہے قدرت آئندہ اْنہیں بھی کوئی موقع فراہم کر دے مگر یہ وقت عامر ذوالفقار کا تھا۔۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ بہت سی خوبیاں اْن میں ہیں مگر مجھے یہ محسوس ہوتا ہے قدرت جس خوبی کی بنیاد پر اْنہیں نوازتی چلی جا رہی ہے یا اب نوازا ہے وہ والدین کی خدمت ہے جس میں کبھی کسی سْستی یا غفلت کا مظاہرہ اْنہوں نے نہیں کیا، مجھے وہ لمحات یاد ہیں جب اْن کے والد ہسپتال میں تھے اور اْن کی خدمت میں کوئی کسر اْنہوں نے اْٹھا نہیں رکھی تھی، چوبیس گھنٹے وہ اْن کے ساتھ ہوتے تھے اْن کا خیال رکھتے تھے۔۔ دوسری خوبی اْن کی یہ ہے اللہ نے اْنہیں بڑے دل سے نوازا ہے، وہ بڑے دل نواز ہیں، اْن کے بڑے پن کے دو واقعات کا میں خود گواہ ہوں، دو تین برس پہلے ایک سینئر پولیس افسر جو مجھے اپنے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں نے مجھ سے رابطہ کیا کہنے لگے”عامر ذوالفقار صاحب بہت اثرورسوخ والے افسر ہیں، وہ ان دنوں مجھ سے ناراض ہیں، میرے حوالے سے شاید کچھ غلط فہمیاں اْن کے دل میں کسی نے بھر دی ہیں، میں اْن غلط فہمیوں کو دْور کرنا چاہتا ہوں، میں نے اْن سے ملنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں ملے، وہ چونکہ آپ کی بہت عزت کرتے ہیں سو مجھے یقین ہے وہ آپ کی بات نہیں ٹالیں گے، آپ اْن کے ساتھ میری ملاقات کا اہتمام کریں بلکہ میرے ساتھ اسلام آباد چلیں“(عامر ذوالفقار تب آئی جی اسلام آباد تھے)۔۔ میں نے اْن سے بات کی، وہ واقعی بہت ناراض تھے، اْنہوں نے مجھے ناراضگی کی وجہ بتائی جو بہت حد تک جائز تھی، میں نے اْن سے صرف اتنا کہا ”بھائی جان اللہ درگزر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے اب جبکہ وہ پولیس افسر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر غلط فہمیاں دْور کرنا چاہتے ہیں میری آپ سے گزارش ہے آپ اْن سے مل لیں، میں اْنہیں لے کر آپ کے پاس اسلام آباد آ جاتا ہوں“۔۔ اس شاندار پولیس افسر نے جواب دیا”آپ اسلام آباد آنے کی زحمت نہ کریں میں خود ہفتے کو لاہور آ جاؤں گا، آپ اْنہیں اپنے گھر بْلا لیں میں وہیں اْن سے مل لْوں گا“۔۔ پھر ایسے ہی ہوا ساری غلط فہمیاں دْور ہو گئیں، سینئر پولیس افسر نے معذرت کر لی اور اْنہوں نے آگے بڑھ کر اْنہیں سینے سے لگا لیا۔۔ ایسے دو تین اور واقعات ہیں جن میں اْنہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا، یہ اْن کی فطرت ہے، البتہ کوئی شخص اگر کمینگی کی ساری حدیں کراس کر جائے منافقت کی ساری حدیں کراس کر جائے اْسے درگزر کرنا واقعی مْشکل ہو جاتا ہے، عامر ذوالفقار خان کے بارے میں اگلے روز برادرم منصور آفاق نے بہت معلوماتی کالم لکھا وہ آج تک کس کس عہدے پر رہے؟ اس نوعیت کی ساری معلومات اْنہوں نے اپنے کالم میں لکھیں، جو کام لالے نایاب حیدر نے کرنا تھا منصور آفاق نے کر دیا، ظاہر ہے اْن کے پاس جو معلومات تھیں اْنہوں نے وہی لکھنی تھیں، میں ذرا اور طرح کے عامر ذوالفقار کو جانتا ہوں، اْس عامر ذوالفقار کے بارے میں کچھ آپ کو بتا دیا کچھ اگلے کالم میں عرض کروں گا۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.