پب جی گیم۔۔تیزی سے پنپتا ہوا ایک معاشرتی المیہ

9

” PlayerUnknown’s Battlegrounds” المعروف ”پب جی گیم“ آن لائن کھیل کے میدان میں ایک ایسی نئی ایجاد ہے جو اپنے کھلاڑیوں کو کچھ اس طرح سے اپنی طرف کھینچتی ہے کہ بہت کم کسی اور کام کا چھوڑتی ہے۔۔انفرادی اور اجتماعی طور پر کھیلی جانے والی اس گیم کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اسے آپ اکیلے، دودو یا زیادہ سے زیادہ چار افراد پر مشتمل ٹیم بنا کربھی کھیل سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے دیگر دوستوں سے اس بابت آن لائن مشاورت بھی کر سکتے ہیں۔

یہ ایک پلئیر ٹو پلئیر شوٹر گیم ہے جس میں ایک سو کھلاڑی میدان جنگ میں لڑتے ہیں، جس سے تجسس اور دلچسپی کا پہلو ہرگزرتے لمحے مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔۔۔تاہم دوسری طرف نفسیات دانوں کے مطابق،بحیثیت مجموعی، یہ نوجوان نسل کو تشددپر اکسانے والی گیم ہے بلکہ ایک طرح سے اسے گیم کہناہی زیادتی ہے۔۔۔! کھیل تو اعصاب کو تقویت دینے والے، انسانی جسم کو مضبوطی بخشنے والے، ذہن کو صحت مند رکھنے والے اور انسان کے جسم سے منفی توانائیوں کا اخراج کرکے اسے طمانیت و سکون سے بہرہ مند کرتے ہیں جبکہ ”پب جی“جیسی کھیلیں انسان کے اندر، بالخصوص نوجوان نسل میں منفی رجحانات،نفسیاتی الجھنوں،ذہنی و فکری انتشار، جسمانی کمزوری،عدم برداشت،تشدد اور جذبانی ہیجان کو فروغ دینے کا باعث بن رہی ہیں۔ایک تو گھنٹوں اور پہروں کی حد تک اس”گیم نما
“ میں شریک رہنے سے بچوں کے وقت اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے پیسے کا زیاں اور سب سے بڑھ کر انسانی تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں میں زوال کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔۔۔!
نوجوان نسل اسے ایک علت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کی عادی ہوتی چلی جارہی ہے۔ہر وقت ان کے ذہن میں اس گیم سے متعلقہ پراگندہ سوچیں چھائی رہتی ہیں۔ وقت پر سونا اور نہ وقت پر جاگنا ان کی قوت حیات کو بری طرح سے متاثر کر رہاہے۔اس کھیل کے مار کٹائی کے مرحلے وار بڑھتے ہوئے سلسلے نوجوان نسل کو، ایک غیر محسوس انداز میں، ایک ایسے انسانی المیے کی طرف لے جارہے ہیں جس کا اندازہ بھی محال ہے۔۔۔!
سنتے ہیں کہ کھیل کے ایک مرحلہ میں خانہ کعبہ سے مماثل جگہ کو نعوذ باللہ مسمار کرنا، وہا ں قتل وغارت کر نا اور اس پر قبضہ کرنا وغیرہ بھی شامل ہے۔ شعائر اسلام کوکیسے تاک تاک کر نشانہ بنایاجارہاہے اور ایک غیر محسوس انداز میں نئی نسل کو ایسی گیمز کی آڑ میں شعائر اسلام کے حوالہ سے بے ادبی پر اکسایا جا رہاہے۔۔۔! اس کے نتائج کیا ہوں گے۔۔۔اس پر غور کرنے اور اس عمل سمیت ایسے تمام اعمال پر کڑی گرفت کی ضرورت ہے۔۔۔جن کے ذمہ یہ کام تھا،وہ مصلحت کی چادر اوڑھے خاموش ہیں اور عوام الناس جن کے ہاتھ میں کچھ نہیں وہ اضطراب کا شکار ہیں اور مجبور والدین اپنی نظروں کے سامنے اپنے بچوں کے اخلاقی کر دار کے زوال کو بے بسی سے دیکھ رہے ہیں۔۔۔!
ستراور اسی کی دہائی میں سلطان راہی کے گنڈاسے سے گاؤں کے گاؤں تباہ کرنے کے اثرات سے کس کو انکار ہے جبکہ تعلیمی اداروں میں ایک طرف”مار نہیں پیار“ پرزور دیا جارہاہے تو عام زندگی میں بچوں کے ہاتھوں میں کس قدر خطرناک ہتھیار تھما دیے گئے ہیں۔وہ وقت بھی تھا کہ جب سنسر بورڈ سے پاس ہونے کے بعد پروگراموں اور فلموں کو آن ائیر کیا جاتا تھا اوران کے اندر بہت سی قطع و برید ہوتی تھی،کئی نامناسب جملوں، مناظر،لہجوں اور معترض حصوں کو سنسر کیا جاتا تھا تاکہ عوام الناس کے ذہن پر منفی اثر نہ پڑے۔جبکہ آج چیک اینڈ بیلنس کاایسا کوئی مؤثرنظام نافذ العمل نہ ہے کہ جس کے تابع عوام تک پہنچنے سے پہلے ایسے سارے سلسلوں کی کانٹ چھانٹ کی جاسکے۔۔۔!
آخر کون آگے بڑھے گا۔کسی نہ کسی کو تو پہل کرنا ہوگی کیا عدالت عظمیٰ، کیا حکومت، کیا ادارے۔۔۔؟کہیں سے کوئی منظم آواز سنائی نہیں دے رہی، اگر کوئی بات کر تا بھی ہے تو اس کی بات کو مذہبی قدامت پسندی کا نام دے کر توجہ نہیں دی جاتی اور جن کو اس کام کی تنخواہ دی جارہی ہے اورجن کا کام ان سب نا ہمواریوں کو روکنا ہے وہ جانے کس دنیا میں گم ہیں۔۔۔ نتیجتاً ”پب جی“ کاجادو سر چڑھ کر بول رہاہے اور نوجوان نسل تباہی کی طر ف بڑھ رہی ہے۔۔۔ایسے میں شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ کی صدا ہر سو گونج رہی ہے:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ!

تبصرے بند ہیں.