اس جہانِ رنگ و بُو میں ربِّ جہاں نے جا بجا بلکہ ہر جا اپنی آیات رقم کر رکھی ہیں۔ دیدہِ بینا وا ہو تو ان کی تلاوت ہو۔ دل و دماغ حاصل و وصول کی جمع تفریق سے فارغ ہو تو ایک نقطے پر مرتکز ہو۔ عین اور غین کا فرق اُس نظر میں ختم ہونے کا امکان ہوتا ہے جو اپنے مفاد سے منسلک زمان و مکان پر نہ پڑے۔ عجب بات ہے، اِدھر ذاتی مزاج اور مفاد کا تنکا آنکھ میں پڑا، ادھر کائنات کا منظر اپنی وسعتوں اور لطافتوں سمیت رخصت ہوا۔
نیند، طفولیت اور قبل از پیدائش زمانوں کے حالات تو انسان کی یادداشت کی گرفت میں نہیں …… ان حالات و مقامات کا ذکر یوں بھی قابلِ ذکر نہیں کہ انسان ان ادوار سے گزرتے ہوئے ابھی راستوں کے انتخاب کی قوت و صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہوتا، لیکن اشہبِ شعور پر سوار ہوتے ہی انسان کو دو کائناتوں سے واسطہ پڑتا ہے…… ایک حقیقی کائنات جو خالقِ کائنات کے خیال کا عکس ہے اور دوسری ورچوئل کائنات جو انسان کی قوتِ متخیلہ کا نقش ہے…… یعنی انسان کی خواہشات کی سکرین پر ابھرنے والی ورچوئل غیر حقیقی کائنات۔ انسان کی قدر اس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ کس کائنات میں رہنا پسند کرتا ہے۔ وہ قدرتی کائنات کے مناظر میں قدرتِ کاملہ کے جلال و جمال کا مشاہدہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے یا پھر اپنے ہی ذہن میں ابھرنے والے خاکوں کے پتلی تماشوں سے دل کو بہلاتا رہتا ہے۔ کسی غیر حقیقی کائنات میں رہنے والا حقیقت کی دریافت سے کتنا دور ہو سکتا ہے، یہ اندازہ لگانا قطعاً دشوار نہیں۔
کائنات میں بکھری ہوئی آیات یعنی نشانیوں کو ایک تسبیح میں پرونا اور سنبھالنا ہی اصل کام ہے۔ ایک صاحبِ فکر کے سامنے یہی کام ہے۔ غیرمربوط منظر میں ربط تلاش کرنا ہی دراصل تلاش کا مدعا ہے۔ ظاہرکے تمام دانے، تمام مناظر اس وقت تک غیر مربوط رہتے ہیں جب تک اسے باطن میں کوئی امام میسر نہیں آتا۔ تسبیح کا امام ہی تسبیح کے دانوں کو مرتب کرتا ہے…… اور امام کے ملتے ہیں ظاہر مربوط ہو جاتا ہے…… ذکر اپنی تمام صورتوں اور سورتوں سمیت تسبیح، ثنا، تہلیل، نعت اور منقبت کی صورت میں نغمہ گر ہو جاتا ہے۔ جب تک باطن کا حوالہ میسر نہ ہو، کائنات حادثات کی زد میں رہتی ہے، الل ٹپ رہتی ہے اور کسی اتفاقی حادثے کی پیداوار معلوم ہوتی ہے۔ کائنات کو COSMOS کہا جاتا ہے، اگر اس میں ربط کا مشاہدہ نہ کیا جائے تو یہی بے ربط زمان و مکان پر مشتمل ایک افراتفری CHAOSE ہے۔ سائنس کی بساط یہی ہے کہ اس میں سبب اور نتیجے کا ربط تلاش کرتی رہے۔ سبب اور نتیجے کی بچھائی ہوئی یہ بساط قاعدے اور کلیے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت تک بہت بھلی معلوم ہوتی ہے جب تک مشیت کا کوئی مہرہ اسے شہہ مات نہیں
دے دیتا۔ ”واللہ خیر الماکرین“ کی آیت تلاوت کرنے والوں کے لیے یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔
نشانی بذاتِ خود اہم نہیں ہوتی بلکہ نشانی فکر و نظر کو جو رخ مہیا کرتی ہے وہ اہم ہوتا ہے۔ نشانی ماننے والوں کے لیے حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔ نشانیاں یقین کی دولت رکھنے والوں کا نصاب ہوتا ہے اور آیات کی تلاوت ایمان والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ظاہری دنیا میں سورج اور چاند ایسی بھرپور نشانیاں بھی اس وقت تک کوئی پیغام نہیں دیتیں جب تک باطن میں پیغام وصول کرنے کی صلاحیت بیدار نہ ہو۔ ظاہر پرست کے لیے بس یہ ستارہ اور سیارہ بس آگ کے گولے ہیں اور آگ برساتے ہوئے کسی ستارے کے گم شدہ حصے بخرے ہیں۔ سورج کی روشنی اور افادیت اگر کسی ضرورت مند کو سمجھ میں بھی آ جائے تو لازم نہیں کہ چاند کی چاندنی بھی اس کے فہم و ادراک میں اترے۔ چاند اور چاندنی قلب کے آنگن میں اترتے ہیں …… وہ قلب جو پاک ہو…… لالچ، خوف اور حزن سے پاک!!
اسی کائنات میں ایک اور کائنات بھی جلوہ گر ہے، بلکہ اس کائنات کو بنانے والا اپنے تمام تر جلووں کے ساتھ اپنی صفات کے پردوں میں جلوہ گر ہے۔ ہم دھوپ اور روشنی دیکھ سکتے ہیں، سورج کو دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتے۔ بس یہ کہہ سکتے ہیں …… آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ سورج کی موجودگی حسِ بصارت سے متصف ناظر ہی محسوس کر سکتا ہے۔ باطنی کائنات میں طلوع ہونے والے آفتاب و ماہتاب بھی کسی بصیرت والے کی دیکھی بھالی خبر ہیں۔ نشانیوں کے اخبارات تک رسائی کے لیے جس تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے وہ سکولوں اور مدرسوں میں نہیں دی جاتی…… دی بھی نہیں جا سکتی۔ اجتماع کا انکشاف اور چیز ہے، فرد کا مکاشفہ اور چیز! مشاہدے میں جتنا اجتماع شامل ہو گا، یہ اتنا ہی عمومی ہوتا جائے گا۔ فرد کا مشاہدہ قیمتی ہوتا ہے۔ انفرادیت سے فردیت تک رسائی ہی فکر و نظر کا حاصل ہوتی ہے۔ انفرادی مشاہدہ کسی طے شدہ کلیے سے ماورا ہوتا ہے، اس لیے تخلیقی جہت سے متصف ہوتا ہے۔ مشاہدے کا حامل ماضی اور مستقبل کے بوجھ سے آزاد ہوتا ہے، وہ لمحہِ موجود میں ہوتا ہے…… قال سے نکل کر حال میں آن موجود ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی بات معتبر ہوئی جاتی ہے۔
بہرحال نشانیاں دیکھنے والوں کے لیے ہیں، نصیحت سننے والوں کے لیے ہے اور غیب ایمان لانے والوں کے لیے!! غیب اور غیبی حقائق موجود ہونے کے باوجود نہ ماننے والے کے لیے غیر موجود ہیں۔ سورج ایک دیدہِ کور کے لیے محض ایک خبر ہے، سورج ایسی روشن اور بیّن خبر کو نظر بنانے کے لیے بند آنکھ کا کھلنا ضروری ہے۔ غفلت کی آنکھ بند ہوتی ہے، احساس بیدار ہو جائے تو آنکھ کھل جاتی ہے۔ ظاہر سے باطن کا سفر نشانیوں کی تلاوت سے طے ہوتا ہے۔ نشانیوں کا تذکرہ اور ذکر صفات سے ذات کا سفر طے کراتے ہیں۔
”کیا“ اور ”کیسے“ سائنس کا سفر ہے، سائنس خیر و شر کے تصور سے آزاد ہے…… ”کیوں اور کون“ احساس، خیال اور جمال کا سفر ہے…… یہاں خدا کی ذات کی بات ہے…… اس کی پسند ناپسند کی باتیں ہیں، اس کے ارادے، حکمت اور مشیت کی باتیں ہیں۔ ظاہر صرف مظاہرات تک محدود ہے، باطن ذات کی خبر لے کر آتا ہے…… اور ذات سے ذات کا پیمانِ وفا یاد کراتا ہے۔
دنیا کے تمام پند و نصائح، اقوالِ حکمت اور دانائی کے شبد نشانیوں کی مدد سے ظاہر سے باطن کے سفر کی داستان ہیں۔ شاہین پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے والا ایک پرندہ ہے۔ شکاری لوگ، زوالوجی پڑھنے ضرورت مند لوگ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں، سب ظاہر ہے۔ اقبالؒ کو شاہین میں مردِ مومن نظر آیا، اس کے لیے یہ پرندہ ایک نشانی بن گیا اور جہانِ خود آگاہی اور خود داری کی خبر دے گیا۔ پت جھڑ کے موسم میں درختوں سے پتے جھڑتے ہیں، جھڑتے رہتے ہیں۔ ایک قدرتی عمل ہے۔ اس قدرتی عمل کے پسِ پشت کارفرما اَمر تک پہنچنا صاحبِ نظر کا کام ہوتا ہے۔
ایک قدرتی عمل میں اک جہانِ دگر کا مشاہدہ کرنا صاحبِ حکمت کا کام ہے۔ درخت سے پتہ گرتا ہے اور واصفِؒ باصفا زبانِ حال سے کہہ اٹھتے ہیں:
پتہ ٹوٹا ڈال سے، لے گئی پَون اُڑا
اب کے بچھڑے کب ملیں گے، دُور پڑیں گے جا
ظاہر کے موسم کے مشاہدے سے باطن کے فراق وصال کے کسی موسم کی خبر دینا ایک صاحبِ نظر ہی کا کام ہے۔
آیات کی تلاوت، تزکیہ، علم الکتاب اور حکمت — یہ چار چیزیں ہیں جو بعثتِ انبیاء کے مقاصد کے طور پر بتائی گئی ہیں۔ غور کیا جائے تو یہی وہ چار چیزیں ہیں جو انسان کو ظاہر سے باطن کی طرف لے کر جاتی ہیں۔
سورج کا وقتِ مقرر پر نکلنا اور ڈوبنا، چاند کا اپنے مقرر شدہ راستے پر سفر کرتے ہوئے انسانی نگاہ میں اماوس اور پونم کی شکل میں ڈھلنا اگرچہ قوانینِ فطرت کا مظاہرہ ہے لیکن اہلِ نظر کے لیے ان میں نشانیاں ہیں …… وہ ان آیات کی تلاوت سے اپنے باطن کی کتاب مکمل کرتے ہیں۔ خسوف اور کسوف (چاند گرہن اور سورج گرہن کا لگنا) روز مرہ کا مشاہدہ نہیں، یہ کبھی کبھار دکھائی دینے والی نشانیاں ہیں۔ دینِ فطرت ان نشانیوں پر غور کرنے کا حکم دیتا ہے اور ان کے مشاہدے سے فطرت سے فاطر کی طرف رجوع کرنے کا راستہ بتاتا ہے۔ اس راستے کا تعین سنّتِ نبویؐ میں موجود ہے۔
شعورِ انسانی کے لیے نشانی ایک نعمت کی صورت ہیں۔ نشانیاں غین میں عین دیکھنے اور مجاز میں حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے امکان کو اجاگر کرتی ہیں۔
”پس! تم اپنے رب کی کون کون سی نشانیاں جھٹلاؤ گے“۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.