میں لکھنا چاہتا ہوں لیکن لکھنے کو جی نہیں کررہا۔ میں کہنا چاہتا ہوں لیکن کہنے کو دل نہیں کررہا۔ میں مایوس نہیں لیکن اداس ہوں۔ ایک سوال نے مجھے پریشان کیا ہوا ہے۔ اس کے جواب کے لیے میں لمبے عرصے سے کتابیں اور اخبارات پڑھ رہا ہوں، ٹی وی دیکھ رہا ہوں لیکن بات نہیں بن رہی۔ سب کہتے ہیں کہ ”ہمارا ہرکام پاکستان کے لیے ہے“ لیکن پاکستان کون ہے؟ اس کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا اور یہی میری پریشانی کی وجہ ہے۔ میری الجھن کسی نے دور نہیں کی، میں نے سب سے پوچھا۔ مثلاً سیاست دانوں کے پاس گیا تو سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نظر آئی۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ”ان کا سب کچھ پاکستان ہے، وہ ہر کام پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے کررہے ہیں“۔ پاکستان کے عوام میں بہت سے ایسے ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے بھوکے سوتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خاندان کے کسی فرد کو کبھی بھوکا نہیں سونا پڑا، تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خاندان کے کسی فرد کو بیماریوں کے علاج کے لیے سرکاری ہسپتال کے کبھی چکر نہیں لگانا پڑے، تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خاندان کے کسی فرد کو مفلسی سے تنگ آکر کبھی خودکشی نہیں کرنا پڑی۔ تحریک انصاف کا جوان خون جوش مارکر کہتا تھا کہ ”ہم نیا پاکستان بنائیں گے، کرپٹ لوگوں کا حساب لیں گے، دھمکیوں اور خوف کی سیاست ختم کریں گے“ لیکن ساڑھے تین سال پی ٹی آئی نے سرمایہ داروں کے سہارے ہی حکمرانی کی۔ غریبوں کے اندھیرے گھروں کی مثالیں دے دے کر مخالفین کو للکارنے والے عمران خان خود سیکڑوں کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کا وعدہ کرنے والے عمران خان کے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے شہدا کی سیکڑوں ایکڑ اراضی بھی من پسند لوگوں کو الاٹ کردی۔ کیا تحریک انصاف ہی پاکستان ہے؟ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ”ہمارے دو رہنماؤں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو نے پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کیں“۔ ان کا کہنا ہے ”بھٹو خاندان پاکستان کی علامت ہے“۔ کیا بھٹو خاندان کی قربانیوں کی وجہ پاکستان ہے یا اس کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی کو وزیراعظم بنانا یا بینظیر بھٹو کے بعد ان کے شوہر کو صدر بنانا یا آصف علی زرداری کے بعد اب ان کے بیٹے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی، بینظیر بھٹو کی زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی پاکستان میں غریب اور مفلس موجود تھے اور ہیں، بیروزگاری تھی اور ہے، بیماریاں تھیں اور ہیں۔ پیپلز پارٹی کی خاندانی قربانیوں کے باوجود پاکستان کے عام لوگوں کے حالات نہیں بدلے مگر خاندانی حکمرانی کی تسبیح گھوم رہی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی ہی پاکستان ہے؟ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس گیا۔ ن لیگ کا کہنا ہے کہ ”وہ پاکستان کی خالق جماعت ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے“۔ شریف خاندان کو 1972ء 1999ء اور 2018ء کے بعد یعنی اب تک 50 برس کے دوران تین مرتبہ مالی طور پر ختم کیا گیا لیکن ان کے خاندان کے کسی فرد کو کبھی بھوکا نہیں سونا پڑا، علاج کے لیے سرکاری ہسپتال کے کبھی چکر نہیں لگانا پڑے، مفلسی سے تنگ آکر کبھی خودکشی نہیں کرنا پڑی جبکہ پاکستان کے عوام ایسے حادثات سے اکثر دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ اس خاندان کو ہربار مالی موت کے بعد ہربار دولت کے انباروں والی زندگی ملی۔ کیا ن لیگ ہی پاکستان ہے؟ میں
کھلاڑیوں کے پاس گیا۔ یہ کہتے ہیں ”پاکستان کے لیے کھیلنا ہمارا فخر ہے“ لیکن ان میں بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا چلن موجود ہے۔ ان میں سے بھی کچھ کی آنکھیں دولت دیکھ کر چمک اٹھتی ہیں۔ کبھی میچ فکس کرنے کا الزام سنائی دیتا ہے اور کبھی سٹے بازی کی تہمت لگتی ہے۔ کیا یہ کھلاڑی پاکستان ہیں؟ میں فن کاروں کے پاس گیا۔ یہ کہتے ہیں کہ ”ہمارے لیے پاکستان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے“ لیکن فن کی شہرت اور دولت کی آرزو میں ہندوستان جانے کے لیے یہ بہت ترستے ہیں۔ کیا یہی فن کار پاکستان ہیں؟ میں اجتماعی سانحات کے پاس بھی گیا۔ کیا کراچی کی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں زندہ جلا دیئے جانے والے ڈھائی سو سے زائد افراد پاکستان تھے؟ کیا قصور میں بدفعلی کا شکار ہونے والے کئی بچے پاکستان ہیں؟ کیا ناقص مٹیریل کی وجہ سے زیرتعمیر عمارتیں گرجانے سے ہلاک ہو جانے والے مزدور پاکستان ہیں؟ میں کچھ انفرادی لوگوں کے پاس بھی گیا۔ کیا اجتماعی زیادتیوں کا شکار ہونے والی بے شمار لڑکیاں پاکستان ہیں؟ کیا بڑے لوگوں اور اہم عمارتوں پر مقرر سکیورٹی گارڈوں پر فائرنگ کے نتیجے میں مرجانے والے سکیورٹی گارڈ پاکستان ہیں؟ روزگار کی تلاش میں بیرون ممالک جانے والے پاکستانی ہزاروں کی تعداد میں بیروزگار ہوکر واپس پاکستان آتے ہیں۔ کیا یہ بیروزگار پاکستان ہیں؟ کورونا، ڈینگی، کینسر اور دیگر بیماریوں نے پاکستان کے ہیلتھ سیکٹر کا ایسے پول کھول دیا ہے جیسے بوڑھی نائیکہ کی زندگی پر جوانی سے بڑھاپے تک کی فلم بناکر سینما گھروں میں مفت چلا دی جائے اور اُس کی زندگی کو کھلونا بنانے والے کھلاڑی تالیاں بجابجا کر بہترین فلم بنانے پر پروڈیوسر کو خوب داد دیں۔ کیا یہی صحت کا شعبہ پاکستان ہے؟ تاریخ کے شہرۂ آفاق روسی ادیب ”میکسم گورکی“ نے روسی انقلاب کے پس منظر میں ایک ناقابل یقین ناول ”ماں“ لکھا۔ اس میں ایک ماں اپنے بیٹے کی محبت میں بیٹے کے انقلابی نظریات پر چل پڑتی ہے۔ وہ ایک مرتبہ تارکول بنانے والی ایک فیکٹری میں اپنے بیٹے کے ہم خیال اور ہم عمر لڑکے کو خفیہ پیغام پہنچانے جاتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ 25 برس کا خوبرو نوجوان 65 برس کا صدیوں پرانا بیمار بوڑھا لگ رہا ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اس کی عمر کے 40 برس ہمارے ظالم حکمران کھا گئے۔ آسمان پر چمکتا 2022ء کا سورج پوچھتا ہے کہ پاکستان چند طاقتوروں کا نام ہے یا کروڑوں مجبوروں کا؟ پاکستان کون ہے؟ کون بتائے گا؟۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.