اقبال ؒ نسل نو کیلئے پریشان تھے

9

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کو نوجوانوں سے خاص لگائو تھا ۔یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے کلام میں عموماًنوجوانوں سے ہم کلام ہوتے۔وہ سمجھتے تھے کہ نوجوانوں میں کسی پیغام کو قبول کرنے کی نہ صرف صلاحیت ہوتی ہے بلکہ اس کے مطابق زندگی کو تعمیر کرنے کا جذبہ اور عزم بھی ہوتا ہے۔ اقبالؒ کے خیال میں کسی قوم کی ترقی اور عروج کا باعث مال و دولت کی کثرت نہیں بلکہ ایسے نوجوانوں کا وجود ہے، جو ذہنی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند اور پاکیزہ اخلاق و کردار کے مالک ہوں۔ اقبالؒ کے نزدیک قوم کی اصل دولت تندرست، ذہین، محنتی، چاق و چوبند نوجوان ہیں۔
عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کے زیر اہتمام ادبی نشست منعقدہ 3 اگست 2022ء کو محترمہ ڈاکٹرعفت طاہرہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ اقبالؒ کو صرف اردو ادب تک محدود نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اقبالؒ کے افکار میں بہت پھیلاؤ ہے۔اقبالؒ اپنی نسل نوکے لیے پریشان تھے کیونکہ انگریزی نظام تعلیم نے اس نسل کے اندرسے شاہین کی صفات ختم کردی تھیں۔اقبالؒ نے اس نسل کے سامنے ایک بارپھراس درویش صفت،دوراندیش اورغیرت مندوخوددار پرندے کو بطورنمونہ پیش کیا۔ اقبالؒ نے شاہین کی عادات کو فقرکے لیے شاندارمثال بناکرپیش کیا۔اقبالؒ کو قرآن سے عشق تھاکیونکہ ان کے والد انہیں کہاکرتے تھے کہ قرآن ایسے تلاوت کروکہ جیسے ابھی تمہارے دل پرنازل ہو رہا ہے۔ اقبالؒ مفکرانسانیت تھے اورن کے کلام میں طاقت پرواز ہے۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف اْبھارا اور انقلابی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی رْوح پھونک دی۔ اقبالؒ ایک درد ،دل سوز، دوراندیش اور فکر قومیت رکھنے والی شخصیت تھے،
جب وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کے لیے پریشانی میں مبتلا ہو جاتے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لیے تھے۔ شاعر مشرق عقاب کی ساری خوبیاں مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی شاعری کا مسلم نوجوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کے لیے اْٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ ایک الگ وطن پاکستان حاصل کر کے ہی دم لیا۔
علامہؒ کی شاعری مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ انہیں جگاتی ہے کہ منہ سے صرف مسلمان ہوجانے والو عمل سے بھی مسلمان بنو۔ یہ تو اس عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین ہے جس نے اپنی بیٹی بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کہہ دیا تھا کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم نبی کی بیٹی ہو بلکہ تمہارا عمل ہی تم کو جنت میں لے جائے گا۔تو ہم تمام مسلم کس خواب غفلت میں کھوکر اپنی زندگیاں برباد کررہے ہیں۔ یہ زمین و آسمان گواہ ہیں کہ جب مسلمانوں کو اپنی خودشناسی یا خودی کی پہچان ہوتی تب انہوں نے پوری دنیا میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے اپنے اخلاق و کردار سے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرلیا۔ نہ صرف دنیا پر راج کیا بلکہ لوگوں کے دلوں پر بھی راج کیا انہیں کے بارے علامہ اقبالؒ کہتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل تو اپنے نفسوں کی اتنی غلام بن گئی ہے کہ اس نے اپنی خودی روحانی طاقت کو اپنی نفسانی خواہشات کے نیچے روند ڈالا ہے کہ وہ زخمی ہوگئی ہے اور اپنی بے مقصد زندگی پر روتی ہے کہ کب اس کو اس جسم نافرمان سے رہائی ملے اور وہ اس تن مردہ سے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔  علامہ اقبالؒ کو ایسے ہی حکیم الامت کا خطاب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمارا روحانی علاج کیا۔ روح کی بیماریوں کو دور کیا۔ اپنی نسل نو کے لیے امت مسلمہ کے لیے انہوں نے جو لکھا ان کے پاس تو ان کو پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے نئی نسل کبھی تو مغرب کے علوم چھانتی ہے تو کبھی ان کی بوسیدہ تہذیبوں کی تقلید میں لگ جاتی ہے۔ جن کی حقیقت میں کوئی تہذیب ہی نہیں مسلمان اپنی الہامی تہذیب کو چھوڑ رہے ہیں اور دربدر بھٹک رہے ہیں۔
جب تک ہمارے کردار کے اندر اقبالؒ کی فکر نہیں آئے گی، اس وقت تک ہم مقصد آشنا نہیں ہوسکتے۔ ہم نے نوجوان کے اندر اس کردار کی طاقت کو پیدا کرنا ہے۔ یعنی یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مثالی نوجوان ہو لیکن خدا کے تصور اور ظاہری اور باطنی طہارت سے خالی ہو۔ اسی طرح علامہؒ کہتے ہیں کہ جب سچائی گفتگو میں ہو تو صدقِ مقال ہے اور جب سچائی عمل میں آئے تو رزقِ حلال ہے، اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ رزقِ حلال اور صدقِ مقال سے بندہ مومن کی جلوت و خلوت میں جان آتی ہے، جرأت آتی ہے اور حق گوئی آتی ہے۔ اسی لیے علامہ نے کہا:
عزمِ ما را بہ یقیں پختہ ترک ساز کہ ما
اندر ایں معرکہ بے خیل و سپہ آمدہ ایم
’’اے میرے اللہ! میں اپنے قافلے کو لے کر میدانِ عمل میں اتر گیا ہوں، میرے پاس کچھ نہیں، کوئی ہتھیار نہیں، تو یقین کی طاقت عطا کر۔‘‘
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی وہ عظیم شخصیت تھے جنہیں انگریز سرکار کی جانب سے ‘‘سر’’ کا خطاب دیا گیا، ہماری قوم نے انہیں علامہ تو تسلیم کرلیامگر انکے اصلاحی پندونصائح کو شرفِ قبولیت بخشنے کی کبھی زحمت نہیں اٹھائی۔ آج بھی علامہ صاحب کی کتابیں کتب خانوں کی الماریوں اورچیدہ چیدہ گھروں کے اند ر موجود طاقوں تک محدود ہیں۔معلوم نہیں کیوں ہماری قوم نے اپنے محسن شاعر کے افکار سے استفادہ نہیں کیا۔

تبصرے بند ہیں.