وطنِ عزیز کی حرمت

11

ان دنوں ہم پلاٹینیم جوبلی منانے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن اس تمام عرصہ کے دوران ہم اس بات کو صرفِ نظر کرتے رہے ہیں کہ امریکہ ہماری چاکری سے اب تک راضی اور خوش نہیں ہوا ہے۔ آج کل جس جمہوریت کی دن رات دہائی دی جا رہی ہے اس کی حقیقت کا جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ اسے امریکہ نے پچھلے 75 سال میں پاکستان میں اپنی ضرورتوں کے مطابق نافذ کیا ہے۔ ہماری موجودہ جمہوریت کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور 1985ء سے ہوا۔ 80ء کی دہائی میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کا زور خاص طور پر پنجاب میں توڑنے کے لئے ایک ایسی سیاسی قیادت کو جنم دیا جس کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے، نہ صرف پنجاب سے پیپلز پارٹی کا زور ٹوٹا بلکہ افغانستان میں امریکی جہاد بھی بخیر و خوبی انجام پایا۔ یعنی جب امریکہ نے ہمارے ملک میں آمریت کی جگہ جمہوریت لانی تھی تو بھٹو کو لے آیا گیا لیکن جب بھٹو نے آمریت کو للکارا تو اسے غدار قرار دے کر راستے سے ہٹا دیا گیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ امریکہ کی ضرورت پاکستان میں آمریت نہیں بلکہ جمہوریت ہے تو پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی کو چیلنج کیا گیا۔ پہلے یہ آمریت ہی تھی جس کے ذریعے پاکستان اور اس خطے میں سامراجی مفادات کا تحفظ کیا گیا۔
آج لوگ جو بڑے جمہوریت کے چیمپئین بنے پھرتے ہیں انہیں آمریت ہی نے جنم دیا تھا کیونکہ اب پاکستان میں امریکی سامراج کی ضرورت آمریت نہیں جمہوریت ہے۔ اب امریکہ نے ہمارے ملک میں ان لوگوں اور اداروں کو جمہوریت کی نگہبانی پر لگا دیا ہے جو ماضی میں آمریت کی پاسبانی کرتے تھے۔ اب امریکہ اس پورے خطے میں جمہوریت کے ذریعے اپنے سامراجی مفادات کی حفاظت کر رہا ہے۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کی تبدیلی رجیم چینج کا حصہ ہے اور یہ ایک عالمی سازش ہے، بڑی دلچسپ بات یہ ہے پرانے آزمائے ہوئے لوگوں کو آج پھر امریکہ نے جمہوریت کی چوکیداری کا فریضہ سونپ دیا ہے جو ببانگِ دہل کہہ رہے ہیں کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔ لیکن حالیہ دنوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ رجیم چینج کے بعد سے تیزی سے حالات پلٹا کھا رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت ختم کئے جانے کے بعد سے بہت ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا
بغور جائزہ لے کر ہم سازش کو سمجھ سکتے ہیں۔ چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت ایبسولیوٹلی ناٹ کہہ چکی تھی اور اس کے ساتھ کچھ اداروں کے لوگ بھی تھے جو عمران خان کے ہم آواز بنے ہوئے تھے جنہیں آہستہ آہستہ راستے ہٹا کر اب معاملات کو سیدھا کیا جارہا ہے۔ واقعات سے کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ اس رجیم تبدیلی کے پیچھے غیروں کی جنگ لڑنے کی دوبارہ سے تیاری شروع ہو رہی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ روز ہم نے دیکھا کہ افغانستان میں ایک ڈرون اٹیک ہوا اور ایمن الظواہری کا خاتمہ کر دیا گیا ایک طرح سے اس خطے میں ایک بار پھر سے کشیدگی کو ہوا دے دی گئی جو پہلے بھی صرف کم ہی ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی۔ جنرل باجوہ کا امریکہ کو آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لئے فون کرنا اور ایمن الظواہری کی شہادت دونوں اتفاقات میں کچھ مماثلت سی بن رہی ہے۔
امریکہ کو جب پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ اپنی مرضی کے مطابق امداد اور تعلقات کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور پاکستان کا کیا کہا جائے کہ وہ منٹوں میں تیار ہو جاتا ہے امریکہ کی مدد کو اور ایسے ہی پاکستان سرد جنگ میں امریکی مفادات کی تکمیل کرتا رہا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ امریکہ تو کبھی ہماری اس حد تک مدد نہیں کرتا جس سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں وہ تشنہ سی مدد کرتا ہے لیکن ہم ہیں کہ اس کی چالوں کو سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ایوب دور میں پشاور کے نواحی فوجی اڈے بڈھ بیر سے اڑنے والے امریکی یو ٹو جاسوسی طیارے کو خرد شریف کی فوجوں نے مار گرایا، ایوب خان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور اس طرح پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ختم ہوگئے۔ ایوب خان کے منشیوں نے اس کے اضطراب کے اظہار کے لئے "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ـ” نامی کتاب لکھی اور ایوب خان کو امریکہ کے خلاف کھڑا کر دیا۔
نائن الیون کے بعد بھی چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر حکمران تھا۔ نصف شب کی کال کے بعد امریکہ کو اڈوں سمیت وار آن ٹیرر کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ہم نے اپنے مفادات کا کچھ بھی تحفظ نہ کیا اور مستقبل میں اس حوالے سے جو حالات پیش آئے ان کا ذرہ برابر بھی ادراک نہ کر سکے۔ مولانا فضل الرحمان جو کہ دینی جماعت کے قائد تھے جس طرح انہوں نے جنرل پرویز مشرف کا ساتھ نبھایا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس دوران حکومت پاکستان ملکی اور غیر ملکی جہادی لیڈروں کو پکڑ پکڑ امریکہ کے حوالے کرتی رہی اورا س کے عوض اربوں ڈالر کماتی رہی۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے لئے امریکی امداد براہِ راست حکمرانوں کو دی گئی اور پاکستانی عوام کے لئے فلاحی اور تعلیمی منصوبے شدت سے نظر انداز کر دیئے گئے۔ امریکہ نے ڈالروں کے عوض حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ کو تو خوش کر دیا لیکن عوام ناراض ہو گئے۔ انہوں نے سمجھا اور بجا سمجھا کہ امریکہ پاکستان کے حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ کو ہمنوا بنا کر پاکستان پر اپنا غلبہ چاہ رہا ہے اورا س کی اسلامی ثقافت کے درپے ہے اور اپنے منفی مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کو استعمال کر رہا ہے۔ یہاں سے اس خلیج کا آغاز ہوا جس کی بنیاد پر جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو اس نے اسے امریکی سازش قرار دیا اور پاکستان میں اس کے مہروں کی نشاندہی کی تو عوام اس کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں جس طرح وقت گزرتا جا رہا ہے پاکستانی عوام کی ناراضی اور غصے میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اب ہمیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ دوبارہ سے ہمیں اس جنگ کا حصہ نہیں بننا اس کے لئے چاہے کتنے بھی سبز باغ دکھائے جائیں۔ عوام بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم نے امریکی محبت میں مبتلا ہو کر نقصان ہی اٹھائے ہیں امریکہ کی وجہ سے ہمیں جس دہشت گردی کا ملک میں سامنا کرنا پڑا اس نے ہمارے قومی وجود کو لہو رنگ لباس پہنا دیا۔ پورے ملک کا کوئی گوشہ، کوئی قریہ دہشت گردوں سے محفوظ نہیں رہا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بظاہر امریکہ سے بدلہ لینے کے لئے طالبان نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران صرف چند سو امریکیوں کو قتل کیا جب کہ طالبان نے ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کر دیا۔ امریکہ دوستی میں ہماری پہلے ہی معیشت بھی تباہ ہو چکی ہے۔ یہ سب امریکہ بہادر سے دوستی نبھانے کا صلہ ہے۔ ہماری موجودہ حکومت سے درخواست ہے کہ آپ جس بھی شرط پر اقتدار میں آئے ہیں لیکن وطنِ عزیز سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اس کے مفادات کو قربان نہ کیجئے گا۔ اسی وطن سے ہماری آن بان شان ہے، اسی میں ہماری آنے والی نسلوں نے پروان چڑھنا ہے۔ خدا را اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیجئے گا لیکن اس کی حرمت پر آنچ نہ آنے دیجئے گا۔ یہ دولت، شہرت غیرت کے سامنے کچھ نہیں ہے صرف ہمت کی ضرورت ہے، دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.