روپے کی گرتی ہوئی قدر… ہم جنگ ہار رہے ہیں!

22

نہ جانے کس کی نظر لگ گئی وطن عزیز کو، ایسے لگتا ہے ہر خوشی نے اس ملک سے منہ موڑ لیا ہے، معیشت کا دیوالیہ نکل رہا ہے، ہر دوست ملک طفل تسلیاں دے رہا ہے، آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر قرضے کی خاطر ناک سے لکیریں نکلوا رہا ہے، امریکا اپنی من مرضی مسلط کر رہا ہے، چین تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ اُس کے پراجیکٹس کو جان بوجھ کر التوا میں ڈالا جا رہا ہے، سٹاک مارکیٹ بُری طرح کریش کرتی جا رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی تیزی سے اپنی قدر کھو رہی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور بظاہر موجودہ حالات میں اس کے نیچے آنے کے امکان کم لگتے ہیں۔ ایک ڈالر کی قیمت 245 روپے سے اوپر جانے کو ہے۔ ڈالر کی قیمت میں روزانہ کی بنیاد پر تین سے چار روپے اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ 19جولائی کو صرف ایک دن میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً سات روپے کا اضافہ ہوا جو ملکی تاریخ میں ایک دن میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
ڈالر کی قدر میں اضافہ اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جولائی کے وسط میں قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے سٹاف لیول معاہدہ طے پایا۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ڈالر بڑھ کیوں رہا ہے۔ ایسا کیا معاملہ ہو گیا ہے کہ ڈالر قابو میں نہیں آ رہا؟ منی ایکسچینجرز بینکوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ بینک امپورٹرز کو الزام دے رہے ہیں۔ امپورٹر سٹیٹ بینک کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے ذرائع سارا الزام آئی ایم ایف پر ڈال رہے ہیں اور عالمی مالیاتی ادارے سیاسی عدم استحکام اور ڈالر سمگلنگ کو ڈالر کی قیمت بڑھنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
میں معیشت دان تو نہیں لیکن اتنی سمجھ بوجھ تو رکھتی ہوں کہ میرے ملک کی ’’ویلیو‘‘ گر رہی ہے، ہم پر جو ہمارے دشمنوں نے معاشی جنگ مسلط کی تھی اُس میں ہم بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں، آج جنگ کرنے
کے انداز بدل گئے ہیں، دنیا نے ہتھیاروں سے جنگ لڑنا چھوڑ دیا ہے، وہ اپنے دشمنوں کو معاشی طور پر اس قدر کمزور کر رہے ہیں کہ اُن میں سر اُٹھانے کی سکت نہ رہے۔ آج ہم ہر چیز باہر سے درآمد کر رہے ہیں، ہماری اپنی انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے، سال 2021 کی رپورٹ کے مطابق ہم نے 55 ارب ڈالر کی چیزیں باہر سے منگوا کر استعمال کیں۔ جبکہ صرف 28ارب ڈالر کی مصنوعات ملک سے باہر بیچ سکے یعنی 27 ارب ڈالر کا خلا ہم نے اِدھر اُدھر سے پکڑ کر پورا کیا یا بیرون ملک موجود پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم سے پورا کیا ہے۔
اور پھر ایسا نہیں ہے کہ دنیا بھر میں چیزیں امپورٹ نہیں کی جاتیں، ہر ملک امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کرتا ہے، لیکن ہمارے برعکس اُس کی ایکسپورٹ زیادہ ہوتی ہے، جیسے امریکا اگر 2.4 ٹریلین ڈالر کی امپورٹ کرتا ہے تو 2.5 ٹریلین ڈالر کی چیزیں ایکسپورٹ بھی کرتا ہے۔ یعنی 100 ارب ڈالر کا پھر بھی اُسے سالانہ فائدہ ہے۔ اسی طرح اگر چین 2.05 ٹریلین ڈالر کی امپورٹ کرتا ہے تو اُس کی ایکسپورٹ 2.64 ٹریلین ڈالر ہے یعنی چین سالانہ 600 ارب ڈالر فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ پھر آپ جرمنی کو دیکھ لیں یہ ملک 1.1 ٹریلین ڈالر کی امپورٹ جبکہ 1.81 ٹریلین ڈالر کی ایکسپورٹ بھی کرتا ہے یعنی اسے بھی 700ارب ڈالر سالانہ فائدہ ہو رہا ہے۔ مطلب آپ جاپان، فرانس، جنوبی کوریا، برطانیہ، سنگاپور یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں سبھی کی ایکسپورٹ امپورٹ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ تبھی ان ممالک کی معیشت کو دنیا میں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔
لہٰذا ہمیں ڈالر بچانے کے لیے خود بھی اقدامات کرنا ہوں گے، جیسے ہم ہر سال 2 سے تین ارب ڈالر کی چائے کافی پی لیتے ہیں، پھر ہم 6 ارب ڈالر سالانہ کی گاڑیاں خرید لیتے ہیں، 4 ارب ڈالر کی الیکٹرانک اشیاء خرید لیتے ہیں پھر ہم 20 ارب ڈالر سے زائد کی پٹرولیم مصنوعات خرید رہے ہیں اور پھر یہ سب اربوں ڈالر باہر بھیجنے کے بعد کہتے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ مرے کو سو درے! عوام کی جانے بلا، آپ ابھی باہر نکلیں رات کو سارے ریسٹورنٹوں کے تخت بھرے ہوتے ہیں۔ قمقمے اتنی زیادہ تعداد میں روشن ہیں کہ دن کا سماں ہوتا ہے۔ بازاروں میں کاریں، موٹر سائیکلیں لاکھوں کی تعداد میں اسی طرح رینگ رہی ہیں۔ شاپنگ پلازوں میں بیگمات، دوشیزائیں اسی طرح بدیسی برانڈز طلب کر رہی ہیں۔ اس طرز زندگی میں ہمارے حکمراں بھی پیش پیش رہے ہیں، جاگیردار بھی، سرمایہ دار، کارخانہ مالکان بھی اور بقول شاعر دکھاوے اور عیاشی کے بعد ہم قرض میں غرق ہو کر رہ گئے! الغرض اب فاقہ مستی رنگ لارہی ہے۔ مگر صرف ان کی جو فاقے کرتے آ رہے ہیں۔ جو 98فی صد ہیں۔ 2 فی صد تو اب بھی ہفتے میں دبئی کے دو دو تین تین چکر لگا رہے ہیں۔ لندن، نیو یارک گھوم کر آ رہے ہیں۔ استنبول میں راتیں گزار رہے ہیں۔ ہمارے سارے ڈالر تو وہ خرچ کر رہے ہیں۔ ڈالر کی ضرورت ریاست کو ہے۔ سارا بحران ڈالر کی قلت کا ہے۔ یقین مانیں قرض دینے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں تو دولت کی ریل پیل ہے۔ ایک سے ایک قیمتی گاڑی سڑک پر ہے۔ ایک ایک خاندان کے پاس درجنوں گاڑیوں کا قافلہ ہے۔ لہٰذا اس کیلئے ڈالر کا غیر ضروری استعمال روکنا ہو گا۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگلے سال ہمیں قرض کا سود ادا کرنے کیلئے ہی 20 ارب ڈالر درکار ہونگے۔ لیکن اس وقت ہم قلت کا شکار ہیں زر مبادلہ 9 ارب ڈالر سے بھی نیچے آ گیا ہے لہٰذا ڈالر کی قلت اُسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب ہم سب لوگ ملک کی ترقی کا سوچنا شروع کر دیں۔ اس کے لیے حکومت بھی سنجیدگی کے ساتھ پلان کرے۔ ہو سکے تو زراعت پر ہی توجہ دے دیں، اپنی فصلیں اچھی اگائیں۔ تو ڈالر ہمارے کھیتوں میں بھی اگ سکتا ہے۔ پھر باہر سے زیادہ سے زیادہ ڈالر لانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لاکھوں ڈالر آ سکتا ہے۔ اس کے لیے لائسنسنگ آسان کی جائے۔ ایسے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں کہ ہم بھی ڈالر بچا سکیں اور ضرورت پڑنے پر خرچ کر سکیں! اگر ایسا نہ کر سکے تو خاکم بدہن ہم جنگ میں کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں رہیں گے!

تبصرے بند ہیں.