کون کیا ہے

30

عظیم انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔۔۔ مادر دھرتی ایسے انسانوں کو ہر روز جنم نہیں دیتی۔ ایسے اشخاص کے لیے تاریخ کو مدتوں منتظر رہنا پڑتا ہے۔ تب جا کر کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے جس پر تاریخ کو صدیوں ناز کرنا پڑتا ہے۔ سقراط جو دنیا کا پہلا فلسفی شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے کوئی کتاب نہیں لکھی کیونکہ وہ لکھنا نہیں جانتا تھا۔ سقراط انتہائی بد صورت تھا۔ اس کے شاگرد نے اس کی مثال ایک ایسے مجسمے سے دی تھی جو اوپر سے تو نہایت مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دیوتا کی تصویر ہوتی ہے۔ سقراط کی ماں دایہ تھی جبکہ اس کا والد ایک مجسمہ ساز تھا۔ سقراط کبھی پیسہ کمانے کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا کیونکہ اس کی بیوی ہر وقت لڑتی رہتی تھی۔ سقراط نے اس کا کبھی بُرا نہیں مانا۔ سقراط کا ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھنے والا شاگرد کیٹو لکھتا ہے۔ ’’ایک روز میں سقراط کے گھر گیا تو دیکھا کہ سقراط مکان کی دہلیز پر بیٹھا تھا اس کی بیوی اس کو بُرا بھلا کہہ رہی تھی سقراط کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی جب اسکی بیوی نے دیکھا کہ سقراط آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا تو وہ غصہ سے مکان کے اندر گئی اور پانی بھرا ہوا تسلا لا کر سارا پانی سقراط پر انڈیل دیا۔ سقراط نے ہنس کر مجھ سے کہا۔ کیٹو مجھے معلوم تھا بادل گرج رہے ہیں بارش ہو گی‘‘۔ افلاطون اپنے استاد سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا، سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کرا دیا اور کہا ’’آپ یہ بات سنانے سے پہلے تین کی کسوٹی پرپرکھو، اور فیصلہ کرو، کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے؟‘‘ افلاطون نے عرض کیا ’’یا استاد تین کی کسوٹی کیا ہے‘‘۔ سقراط نے کہا ’’کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو وہ سو فیصد سچ ہے‘‘۔ ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں ’’مجھے تم جو بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے‘‘۔ افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا ’’جی نہیں یہ بُری بات ہے‘‘۔ سقراط بولا ’’گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی‘‘ افلاطون خاموش رہا۔ سقراط نے ذرا رک کر کہا ’’اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ
مند ہے‘‘۔ افلاطون نے انکار میں سر ہلا دیا اور عرض کیا ’’یا استاد یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں‘‘۔ سقراط نے ہنس کر کہا ’’اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ سقراط کی قوت برداشت کمال کی تھی شہر میں وہ واحد شخص تھا جو ننگے پیر برف پر گھومتا رہتا تھا۔ سقراط نے نوجوانی میں میدان جنگ میں بہادری کا انعام حاصل کیا تھا۔ سقراط کا زیادہ وقت ایتھنز کے باغات اور بازاروں میں اپنے شاگردوں سے باتیں کرتے گزرتا۔ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے کا عجیب و غریب فلسفی اپنی طرف سے کوئی فلسفہ بیان نہیں کرتا تھا اس نے اپنے پیچھے کوئی کتاب تو کیا چار صفحوں کا کوئی چھوٹا سا مضمون بھی نہیں چھوڑا۔ وہ کچھ نہیں لکھتا تھا۔ اس کا اپنا کوئی فلسفہ نہیں تھا وہ لوگوں کو کچھ بتانے کے بجائے ان سے پوچھتا زیادہ تھا، اس کے سوال ہی اس کا فلسفہ تھا ساری زندگی ایک چادر میں گزاری۔ کسی نے اس سے کہا کہ ایتھنز میں ایک آواز سنی گئی ہے کہ سقراط ایتھنز کا سب سے بڑا دانا آدمی ہے۔ سقراط نے ہنس کر جواب دیا: ’’میں اس لیے دانا ہوں کہ مجھے اپنی بے علمی کا احساس ہے‘‘۔ ایک صبح جب سقراط بازار میں آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے خلاف مندرجہ زیل قرارداد جرم چسپاں کی گئی ہے۔ ’’سقراط نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا پہلا جرم یہ ہے کہ وہ ان دیوتاؤں کی پرستش نہیں کرتا جن کو یہ شہر پوجتا ہے، اس کے بجائے وہ اپنی طرف سے نئے دیوتا لے آیا ہے۔ دوسرا جرم اس کا یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو بگاڑتا ہے، لہٰذا اس کی سزا موت ہے‘‘۔ اس الزام آرائی کے پیچھے سب سے بڑا محرک انیٹس نامی ایک چمڑا فروش تھا۔ اس کو سقراط کے خلاف ذاتی بغض تھا۔ بات یہ ہے کہ سقراط نے اس کے بیٹے کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کھالوں اور چمڑے کا کام چھوڑ کر فلسفے سے ناتا جوڑے۔ انیٹس کا اصرار تھا کہ اس کے بیٹے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے سزا موت سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ یوں چمڑا اور علم ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ فتح چمڑے کو حاصل ہو گئی۔ سقراط کو گرفتار کر لیا گیا اس پر مقدمہ شروع ہو گیا۔ سقراط چاہتا تو موت کی سزا سے بچ سکتا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ایتھنز کے قانون کے میں یہ گنجائش موجود تھی کہ موت کی سزا پانے والا کوئی شخص جلاوطنی کو متبادل سزا کے طور پر چن سکتا تھا۔ گویا جس شخص کو موت کی سزا ملتی تھی اس کو یہ اختیار بھی مل جاتا تھا کہ وہ اپنی ریاست سے باہر چلا جائے اور یوں موت کی سزا سے بچ جائے۔ سقراط یہ اختیار کر سکتا تھا مگر وہ اس طرح بچ نکلنے پر تیار نہیں تھا۔ اس کا وقت آ چکا تھا اور وہ جانے کے لیے تیار تھا۔ جب سقراط کی زندگی کا آخری دن آیا تو اس کے کئی شاگرد اس سے جیل میں ملنے کے لیے آئے۔ شاگرد سقراط کے گرد جمع ہیں۔ سقراط ان میں سے ایک کو اپنے پاس بلاتا ہے۔ اس کے بالوں کو چھوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ زندگی، موت اور روح کی ابدیت کے بارے میں اپنے خیالات بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’موت تو ابدی نیند ہے، وہ خود فراموشی کی میٹھی ابدی کیفیت ہے، جس میں کوئی ایذا رسانی نہیں، کوئی ظلم اور نا انصافی نہیں، کوئی مایوسی نہیں اور نہ ہی دکھ درد ہے یا پھر وہ ایسا دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم زمین سے جنت میں داخل ہو جاتے ہیں، وہ ایسی غلام گردش ہے جو ہمیں سیدھی خدا کے ایوان میں لے جاتی ہے اور دوستو وہاں کسی کو اس کے خیالات کے باعث صلیب نہیں چڑھایا جاتا، لہٰذا ہنسو اور میرے جانے پر افسوس نہ کرو۔ جب تم مجھے قبر میں اتارو گے تو جان لینا کہ تم بس میرے جسم کو دفن کر رہے ہو میری روح کو نہیں‘‘۔ جب اس کو موت کی سزا دی گئی اس کے شاگرد جیل کی کوٹھڑی میں اس سے ملنے آئے ایک شاگرد نے کہا افسوس ہمارے استاد کو بے گناہ مارا جا رہا ہے۔ سقراط نے زیر لب تبسم کے ساتھ کہا: ’’تو کیا تم چاہتے تھے کہ میں گناہ کرنے کے بعد مارا جاؤں؟‘‘ سقراط نے ہنستے ہوئے اپنے روتے ہوئے شاگردوں کے سامنے زہر کا پیالہ پی لیا۔ یہ واقعہ ایتھنز میں 404 قبل مسیح پیش آیا۔ قارئین غیر ذمہ داری، لالچ، ہوس، بے ایمانی، کرپشن، ناانصافی سے بھر پور معاشرے میں کسی بھی عظیم انسان اور عظیم لیڈر کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔

تبصرے بند ہیں.