بچوں کا ادب:ماضی،حال اور مستقبل

14

قوموں کی ترقی اور تنزّل میں عمرانی علوم کے مضمون ’نفسیات‘ کا بڑا دخل ہے۔ اِس مضمون کی افادیت اُس وقت مزید کھل کر سامنے آئی جب نفسیات کی پیچ در پیچ پرتوں کے حل نے مسائل کے اِدراک کا موقع فراہم کیا اور فرد کی شخصی صورت گری(Image building)نے اپنے ہونے کے احساس کو مزید پختہ کیا۔نفسیات نے اِس خیال کو بھی عملی جامہ پہنایا کہ فرد کی نفسیاتی تربیت، اعلیٰ قدروں کو استحکام بخشتی ہے اور قوم و مملکت کے لیے نہایت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔مغرب نے مضمون نفسیات کو کُلّی طور پر سمجھنے کے بعد فرد کی تربیت کا آغاز نونہالانِ وطن سے کیا کہ یہی قوم و مملکت کی ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔نونہالانِ وطن کی تربیت بیک وقت ایک آسان عمل بھی ہے اور نہایت پیچیدہ بھی۔نونہال کی فطری صلاحیتوں کو سمجھنے اور ایک مخصوص دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک طویل اور صبر آزما سفر سے گزرنا پڑتا ہے جو سالہا سال کی تربیت پر موقوف ہوتا ہے۔یہی تربیت یافتہ نونہال عمر کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے مملکتوں کے کام آتے ہیں اور ترقی پذیر مملکتوں کو ترقی یافتہ بنانے میں اپنی تخلیقی و ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک عالم کے سامنے سُرخرو ٹھہرتے ہیں۔
تربیت کا آغاز ’ادب و آداب‘ سے ہوتا ہے کہ ادب (Literature)شعور ،تنقیدی شعور،تخلیقیت اور روشن خیالی کا استعارہ ہے اور آداب تہذیبی اقدار کا آئینہ ۔ ترقی یافتہ مملکتوں کی اقوام کا تجزیہ کیا جائے تو یہ دو ہی عوامل پیش بندی کرتے نظر آتے ہیں،جس کی بنا پر ہمیں اعلیٰ تخلیق کار، رہنما،سائنس دان،دانش ور،فلاسفر اور اساتذہ میسر آتے ہیں جو مثبت سمت نما ثابت ہوتے ہیں۔نونہالانِ وطن کی تربیت کا فریضہ اعلیٰ تخلیق کار اور اساتذہ سے ہی ممکن ہے۔ اس پہلے مرحلے میں نونہالوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجالنے کے لیے اُن کی فطری صلاحیتوں کو ایک نفسیات داں ہی محسوس کر سکتا ہے۔یہ نفسیات داں ایک استاد ہوتا ہے جو رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ بچوں میں شوق بیدار کرنے کے لیے جہاں اُن کی جسمانی نشو و نما کی جاتی ہے وہاں تخلیقی نشو و نما کے لیے بھی اُنہیں ایسے مواقع دیے جاتے ہیں کہ اُن کی صلاحیتیں نمایاں ہوں۔رجحان اِن صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو بعد ازاں سمت نماثابت ہوتا ہے۔
کھیل کود اور توڑ پھوڑ کے فطری رجحان کے ساتھ ہی بچوں کو تخلیقیت سے آشنا کرنے کے لیے اُنہیں اشکال، کارٹون اور کہانیوں کی جانب لایا جاتا ہے تاکہ اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملے ۔ لکھاریوں نے اِس ضمن میں اہم کردار ادا کیے ہیں جو بچوں کے تخلیقی رجحان کو سامنے لانے میں کامیاب ہوئے۔مغربی ممالک کے نفسیات دانوں نے نونہالوں کی صورت گری کے لیے نئے نئے طریقے وضع کیے اور بچوں کو بڑے ہونے تک قومی دھارے میں لانے میں کامیاب رہے۔آج مشرقی ممالک کے مقابلے میں مغربی ممالک میں بچوںکے لیے زیادہ تربیتی پروگرامز منعقد ہوتے ہیں۔ اس کام کے لیے پہلے پہل اُنہوں نے والدین کو آگاہی پروگرامز میں شامل کیا اور بعد ازاں اُنہی والدین نے اپنے بچوں کے لیے راہیں ہموار کیں۔مشرق اِس حوالے سے اس لیے پیچھے رہ گیا کہ یہاں تحقیق کا عمل نہایت سست اور حوصلہ افزا نہیں ہے، دوم یہ کہ نتائج کے حصول کے لیے سائنسی عوامل پر مشتمل تحقیق کی تربیت بھی نہیں ہے۔
اگر ہم مشرق میں بچوں کے لیے لکھے جانے والے ادب کی بات کریں تو بھی صورت حال دگرگوں ہے‘سینئر اس لیے بچوںکے لیے نہیں لکھتے کہ اب وہ سینئر ہیں‘نوجوان اس لیے بچوں پر نہیں لکھ سکتے کہ وہ سینئر بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ بچوں کے لیے کون لکھے؟۔مجھے انتہائی خوشی ہو رہی ہے کہ آج سے اکادمی ادبیات پاکستان میں ڈاکٹر یوسف خشک کی سرپرستی میں پاکستان میں پہلی بین الاقوامی کانفرنس شروع ہو رہی ہے جس کا موضوع’بچوں کا ادب: ماضی، حال اور مستقبل‘ ہے۔ اس کانفرنس میں یہ بنیادی سوال اٹھایا جائے گا کہ بچوں کے لیے لکھنا کیوںضروری ہے اور مشرق اس حوالے سے کیوں پیچھے رہ گیا،یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جانا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں جو ادیب بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں‘انھیں کبھی بھی قومی دھارے میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟دونوں طرح کے سوال اور اس سے جڑے کئی سوالات اور موضوعات پر اس کانفرنس میں بحث ہوگی۔
برصغیر میں بچوں کا پہلا ماہنامہ رسالہ’بچوں کا اخبار‘ کے نام سے لاہور سے مئی ۱۹۰۲ء میں جاری ہوا تھا۔ یہ رسالہ روزنامہ ’پیسہ‘ گوجرانوالہ کے مالک و مدیر مولوی محبوب عالم نے ’پیسہ‘ لاہور کی اشاعت کے بند ہونے کے بعد یہ ماہنامہ جاری کیا تھا، ایک شمارہ کی قیمت تین آنے اورسالانہ مع محصول ڈاک دو روپے چھ آنے تھی۔یہ ماہنامہ رسالہ دس سال تک جاری رہتے ہوئے ۱۹۱۲ء میں بند ہو گیا۔اس کے بعد مختلف ادوار میں پاک و ہند کے مختلف خطوں سے رسائلِ اطفالِ اردو نکلتے رہے‘ان میں لکھنے والوں میں اردو کے درجنوں قدآور ادیب بھی شامل تھے جن کا ذکر راقم اپنے مقالے ’تاریخِ رسائلِ اطفالِ اردو‘میں کانفرنس کے دوسرے روز پیش کرے گا۔راقم نے اپنے مقالے میں ایک سو دس سال (۱۹۰۰ء تا۲۰۱۰ء)کا اجمالی جائزہ پیش کیا ہے‘اس مقالے میں سو سے زائد رسائلِ اطفالِ اردو کا ذکر کیا گیا ہے۔تین دن جاری رہنے والی اس بین الاقوامی کانفرنس میں تیس سے زائد سیشنز اور سو سے زائد مقالہ نگاران(اندرون و بیرون ملک سے) ہوں گے۔موضوع‘سیشنز اور ذیلی عنوانات کے لحاظ سے یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور یادگار کانفرنس ہو گی کہ جس میں دنیا بھر سے بچوں کے ادب پر لکھنے والے تخلیق کاراور مدیران شریک ہو رہے ہیں۔اس کانفرنس میں دائرہ علم وادب پاکستان نے بھی اشتراک کیا ہے جو یقینا اہم قدم ہے۔دائرہ علم و ادب اس سے قبل بھی دو قومی کانفرنسیں‘ پھالیہ میں کرا چکا۔ میری اپنے قارئین سے بھی گزارش ہے کہ اگر آپ کے پاس وقت ہے تو آپ اس کانفرنس میں بچوں سمیت شریک ہوں تاکہ بچوں کی علمی و ادبی تربیت کے حوالے سے آپ سیر حاصل مقالات اور گفتگو سن سکیں۔

تبصرے بند ہیں.