اس وقت ملکی معیشت کی صورتحال دگر گوں ہے مگر اس کے باوجود تمام سیاسی جماعتوں کی پوری طرح توجہ سیاسی لحاظ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی طرف مبذول ہے۔ان تمام سیاسی جماعتوں کا اگر ہم موازنہ کریں تو تمام تر کی اس وقت توجہ جلسے کرنے اور پنڈال بھرنے کی طرف ہے ایک مقابلے کی سی صورت دکھائی دے رہی ہے کہ آخر کون جلسے میں زیادہ لوگ جمع کر ے گا۔یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران اپنے ارد گرد کارکنوں کے رش کو دیکھ کر ہی محظوظ ہوتے دکھائی دیتے ہیں تمام سیاسی لیڈران میں سے کسی ایک کی بھی سوچ ملکی معیشت کو بہتر کرنے اور انہیں صحیح ڈگر پہ لانے کی کوئی بھی کوشش دکھائی نہیں دے رہی آخر ان مسائل کو سوچے گا کون؟
گزشتہ روز وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی پریس کانفرنس سے بھی صاف نظر آرہا ہے کہ اس وقت ملک کی معاشی حالات کو درست کرنے کے لیے اس وقت کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے کی قوت نہیں ہے۔ وزیر خزانہ روزانہ کی بنیاد پہ توانائی کی سبسڈی کے خساروں کا شکوہ تو کرتے ہیں مگر حل تجویز نہیں کرتے۔ان سب بحرانوں کا حل کون سوچے گا؟کیا سیاسی کھینچا تانی اور یہ جلسے جلوس یوں ہی چلتے رہیں گے؟
عمران خان نے بھی تو بہت دعوے کیے مگر ان کے دور میں جتنی مہنگائی ہوئی کہ مزدور ،اور محنت کش طبقے سے عزت کی روٹی بھی چھین لی اور اگر کوئی سستی سکیم نکلتی ہے ،سستا آٹا،یا سستا گھی ،وہ سب کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے یا پھر اُس کا فائدہ ملز مالکان ہی کوئی نہ کوئی چکر چلا کر اُٹھاتے ہیں مگر عوام پھر ویسے ہی رہ جاتے ہیں۔ ڈالر کو تو جیسے پر لگ چکے ہیںروز بہ روزپرواز بلند ہے ڈالر 182 سے بڑھ کر 200 روپے تک پہنچ چُکا ہے دن بہ دن اگر یوں ہی روپے میں گراوٹ ملکی معیشت کے لیے الارمنگ صورتحال ہے اگر ابھی بھی اس کو کنٹرول نہ کیا گیا تو پھر حالات مکمل طور پہ دسترس سے باہر ہو جائیں گے۔
آئی ایم ایف سے ملاقات اس ہفتے متوقع ہے عالمی مالیاتی ادارے ایک ارب ڈالر کی قسط کو تیل کی قیمتوں سے مشروط کر دیا ہے۔اب پھر سے تیل،پیٹرول کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے تقریباً 45روپے اور ،ڈیزل میں 73روپے فی لیٹر اضافہ ہوسکتا ہے اب ان نئی قیمتوں کے بعد مہنگائی کا ایک نیا بھونچال آجائے گا۔مہنگائی کے ستائے لوگوں کے ساتھ اب نئی مہنگائی اگر ہوگی تو اُن کے ساتھ زیادتی ہوگی کیونکہ پہلے ہی عوام کی کھانے پینے کی اشیاء کی قوت خرید نہیں رہی اور مزید مہنگائی سے تو اُن کی دال روٹی بھی چھن جائے گی، آخر اس بارے میں تو کوئی پلاننگ ہونی چاہیے کہ آخر کیسے ان چیزوں کو کنٹرول میں لایا جا سکتا ہے ،جب تک ڈالر کی اُڑان اور بڑھتی قیمتوں کو کنٹرول نہ کیا گیا تب تک کچھ بھی ممکن نہیں اور روپے کی گراوٹ یوں ہی بڑھتی رہے گی روپے کی گراوٹ کا کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔
مہنگائی کا نہ تھمنے والا طوفان تو دکھائی دے رہا ہے مگر ایک مزید نئے چیلنج کی طرف بھی ہم جا رہے ہیں خشک سالی اور اس کے نتیجے میں قحط کی سی صورتحال سے دوچار ہونے والے ہیں یہ بات میں نے اپنے سابقہ کالم میں بھی کی تھی مگر اس کے لیے ابھی تک کسی سیاسی جماعت کے لیڈران کی توجہ نہیں جا رہی ۔اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 23ممالک اس کی زد میں ہیں۔اس فہرست میں افغانستان، انگولا، برازیل، برکینا، فاسو، چلی، ایتھوپیا، ایران، عراق، قازقستان، کینیا، لیسو تھو، موریطانیہ، نائیجر، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، پاکستان، امریکہ، زیمبیا شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے خشک سالی کے خلاف اقدامات کرنے والے ادارے کی رپورٹ میں تین عشروں تک رونما ہونے والے متوقع خطرات کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2050تک بھارت اور پاکستان کے مجموعی رقبے کے تقریبا مساوی 40لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل مزید علاقوں کو بحالی کے اقدامات کی ضرورت ہو گی۔
اس خوفناک چیلنج سے نبٹنے کے لیے ابھی تک کسی کی توجہ نہیں ہو رہی لوگوں کو ایک عرصے سے پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور مزید اس موسم کی تبدیلی سے سندھ کے بہت سے علاقوں میں اور اب پنجاب میں بھی لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ چلیں ڈیم نہ صحیح مگر خدارا سوچیے!
بارشیں بھی کم ہو چُکی ہیں ،مگر بارشوں کے پانی کو بھی محفوظ کرنے کی پلاننگ ہونی چاہیے اُس کو بھی صاف کرکے پینے کے صاف پانی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔بہت سا پانی تو سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے۔اُس پانی کو بھی محفوظ کیا جائے۔مگر ایسا کرے گا کون؟ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے اپنے جلسوں میں ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہوئے ایک دوسرے کو طعنے دینے میں مصروف ہیں، اس سے پہلے بھی یہ سلسلہ (ن)لیگ کی طرف سے چلا اب (ن)لیگ اور پی ٹی آئی ،دونوں جماعتیں مصروف ہیں اب اداروں کو اپنی سیاسی چپقلش میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ غور کیا جائے تو عمران خان نے بھی اپنی تقریر میںبہت سے اداروں کو نشانہ بنایا۔یہ بات بار بار کر رہے ہیں کہ مجھے مارنے کی سازش ہے ۔میں عمران خان کو مخاطب کرکے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ جب وزیر اعظم تھے تو بقول آپ کے کہ آپ کو قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے تو جب آپ وزیر اعظم تھے اور آپ کو معلوم بھی ہو چُکا تھا تو سب کچھ تو آپ کے ماتحت تھے اور آپ اچھے سے اُس کا حل بھی کر سکتے تھے اُس وقت حل کی طرف جانے کے بجائے اب آپ یوں اپنے جلسے جلوسوں میں بات کرکے نہ تو ملک کے لیے بہتر کر رہے ہیںاور نہ ہی ہمارے اداروں کے لیے انٹرنیشنلی ایک اچھا پیغام ہے آپ وزارت عظمیٰ کے اہم عہدے پہ فائز رہے ہیں آپ کو تو چاہیے کہ آپ اداروں سے مدد لیں آپ ہی اداروں کی مثال دیتے تھے کہ ادارے مضبوط بنانے چاہیے کیا آپ اپنے دور میں ادارے اتنے بھی مضبوط نہ کر سکے کہ آپ اپنے ہی اداروں سے مدد لے سکیں؟
اب اس ملک کو بچانا ہے تو اس سیاسی چپقلش کو بند کرنا پڑے گا ، معاشی چیلنج سے تو پہلے ہی نبٹ نہیں پا رہے تو نئے چیلنجوں کا ہم کیسے مقابلہ کریں گے اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ابھی سے سوچنا ہو گا کیونکہ اس ملک میں مزید چیلنجوں سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.