سنا ہے میرے شہر میں پھر سے عید آئی ہے!

29

یہ تو اکثر آپ نے سنا ہوگا کہ خواتین قدرے کمزور دل کی ہوتی ہیں، بس کہیں غمگین سی صورتحال بنی نہیں کہ آنکھیں بھر آتی ہیں اور پھر کبھی کبھار آنسو چھلک بھی جاتے ہیں۔ گزشتہ روز ٹی وی پر ایک بوڑھی عورت کی باتیں سن کر میرا دل اْس وقت اْداس ہوگیا جب اْس نے کہا کہ ہم اپنی افطاری کے دسترخوان پر سجے بیشمار کھانوں میں یہ کیسے بھول جاتے ہیںکہ کچھ لوگوں کا مغرب کے بعد بھی روزہ ہوتا ہے،یہ کہہ کر وہ رونے لگ گئی کیوں کہ اْس کے گھر کا واحد کفیل بیٹا بیمار ہو کر فوت ہوگیا تھا، جبکہ اْس کے تین بچے، بیوہ اور بوڑھی ماں اب کسی کے زیر کفالت نہیں تھے، کئی کئی دن سے ایک ہنڈیا پر گزارہ کرنا پڑتا۔ عید کے نئے کپڑے تو دور کی بات عید پر دو وقت کی روٹی ملنے کے آثار بھی کم دکھائی دے رہے تھے۔ اس بوڑھی عورت کو دیکھنے کے بعد میں سوچ رہی تھی کہ اس ملک میں کتنے ہی ایسے خاندان ہوں گے جنہیں ٹی وی پر آنے کا موقع نہ ملا ہوگا اور اپنی ہی وضع داری میں گھر بیٹھے ہی آس اْمید لگائے بیٹھے ہوں گے کہ اے کاش کوئی اْن کا مسیحا بنے۔ کوئی اْن کے لیے بھی عید کا ساماں پیدا کرے یا آس اْمید پیدا کردے کیوں کہ بقول شاعر
غریب ماں اپنے بچوں کو بڑے پیار سے یوں مناتی ہے
پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آ تی ہے
میں یہ نہیں کہتی کہ یہ پرسان حال عوام کو اس نہج پر لانے والا کون ہے؟ کیا ہم اس کے ذمہ دار خود ہیں یا کوئی اور؟اگر خود ہیں تو ایسا کیوں ہے؟ ہم خود سے کیوں نہیں ترقی کرتے، کیوں کہ یہاں تو اشرافیہ صرف اپنا پیٹ بھر رہی ہے، اْن کی تو عیدیں بھی اچھی، ان کا ہر تہوار عید، ان کا ہر گزرا دن عید مگر میرے چاروں سمت تو دکھوں، فاقوں، زخموں اورآنسوؤں کے گدلے پانیوں کی رات ہے۔ اس ’’جھیل‘‘ کی تہہ میں مجھے تو خوشی کا کوئی دمکتا موتی دکھائی نہیںدیتا۔آپ یقین مانیں کہ ہمارے سایہ ویلفیئر فاؤنڈیشن میں بھی ایسے ایسے تنگدست لوگ
آتے ہیں کہ زارو قطار رونے کو دل کرتا ہے، آپ ہمارے ہاں موجود ہر شخص سے کہانی سن لیں ایسی ایسی بے بسی کی کہانیاں سننے کو ملیں گی کہ خدا کی پناہ !
بہرکیف اس معاشرہ میں جہاں 98فیصد گھروں میں غربت، عسرت، تنگدستی، فاقہ مستی، خود سوزی اور خودکشی کی وارداتوں نے آج بھی صف ماتم بچھا رکھی ہے، حیران ہوں کہ ان تیرہ و تاریک گھروں کے 22 کروڑ مکین کیونکر عید منائیں گے؟ بقول ساغر صدیقی
حاکمان وقت دیکھیں قوم کا کیا حال ہے
چند لوگوں کی ہیں عیدیں معاشرہ کنگال ہے
آٹا گھی چینی کا بھاؤ اور کہاں تک جائے گا
قیمتیں ہیں آسماں پر کون نیچے لائے گا
حد تو یہ ہے کہ ان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ میرے ملک کے صاحب حیثیت عوام بھی اپنے قرب وجوار میں فاقوں سے سسکتے انسانوں کو،بے گھر لوگوں کو، بے لباس بچوں کو، چھوڑ کر جو لوگ کئی کئی حج کرتے ہیں سال میں کئی کئی بار عمرہ کرنے جاتے ہیں ہر ماہ رمضان مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھتے ہیں وہ اپنی مہنگی ترین عبادتوں میں کیسے روحانی سکون کے متلاشی ہیں۔ رب کی تلاش میں لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیںرب تو ان لوگوں میں بھی بستا ہے جو ان کے قرب وجوار میں انکی بے حسی اور اپنی بے بسی کی زندہ مثال ہیں۔اور پھر درست کہا گیا ہے کہ جیسے عوام ہوں اْن پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ اسی لیے آپ ان حکمرانوں کی اہلی اور نا اہلی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر سال عید آتی ہے اور ہر سال مہنگائی کا رونا رویا جاتاہے … ہر سال سیلاب آتے ہیں اور ہرسال سیکڑوں لوگ مرتے ہیں … لیکن کوئی سد باب نہیں کیا جاتا… اور نہ ہی اس طرف کوئی سنجیدہ کوشش عمل میں لائی جاتی ہے … دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ مذہبی تہواروں کے مواقع پر عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔ حکومتیں ہی نہیں ہر طبقے کے افراد دیگر طبقات کے لوگوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً یورپ و امریکہ میں لوگوں کی اکثریت،ایسی چیزیں جو عام دنوں میں گراں ہونے کے باعث نہیں خریدی جاسکتیں، ان کی خریداری کے لیے کرسمس کا انتظار کرتی ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں عید اور رمضان المبارک کے موقع پر تو بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کو تو چھوڑ دیجیے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں بھی رمضان کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرکے مسلمانوں کوسہولت دی جاتی ہے۔پاکستان میں راشی افسروں، ملاوٹ کرنے والے متشرع تاجروں، تراویح کا ناغہ نہ کرنے والے ذخیرہ اندوزوں، پانچ وقت نماز کی پابندی کرنے والے کے لیے یہ مہینہ بیحد بابرکت ثابت ہوتا ہے۔ ایک روپے کی چیز پندرہ روپے میں فروخت کی جاتی ہیں اور اس صریحاً لوٹ مار کو جائز بھی سمجھا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ عید ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم دوسروں کو خوشیاں دیں، دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ جب ہم یہ سوچ کر نیکی کریں گے کہ اس سے انسانیت کی فلاح ہوگی، تو یقین مانیں آپ کا ضمیر بھی پرسکون رہے گااور آپ بھی ہمیشہ پرسکون رہیںگے۔ اور اگر حکومتی سطح پر آپ دیکھیں کہ ن لیگ کی نومولود حکومت جو بدلے کی سیاست شروع کرنے جا رہی ہے اْسے چاہیے کہ سب سے بڑا بدلا ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ اس نظام کی بہتری کے لیے کام کریں۔ اگر کام ہوتا نظر آئے گا، اگر حکومت چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو بہتر بنا لے گی، اگر حکومت ناجائز منافع خوری پر کنٹرول حاصل کر لے گی تو یہی سب سے بڑا بدلا بھی ہوگا اور حکومت کا عوام پر احسان ہوگا۔ ورنہ ڈیڑھ سالہ حکومتی دور کا پتہ بھی نہیں چلنا اور برسراقتدار حکمرانوں نے ایک بار پھر ہاتھ ملتے رہ جانا ہے!!!

تبصرے بند ہیں.