سیاہ کار سیاست۔۔۔

22

وطن عزیز میں ایک بار پھر عدم اعتماد کا غلغلہ ہے، ہمیشہ کی طرح ہر کوئی اپنی اپنی بولیاں لگا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں آج تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا اور ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی انا کا شکار بنا۔ عدم اعتماد ہے تو آئینی معاملہ لیکن اسے کامیاب یا ناکام بنانے میں ہر غیر آئینی طریقہ استعمال کیا گیا۔ اس بار عدم اعتماد کا نشانہ وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ بھی ماضی کی طرح عروج پر ہے۔ ہمیشہ کی طرح کل تک حکومت کے ہر اچھے بُرے کام میں شریک کار اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے حکومتی اتحادی آج حکومت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ مسلم لیگ نواز چودھریوں کے در پر سجدہ ریز ہے۔ مسلم لیگ ق کے پرویز الٰہی، جو مسلم لیگ ن کی ایک نظر التفات کے منتظر رہتے تھے، نے صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کی دعوت قبول کر کے بھی انکاری ہو کر اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑا دیں۔ گو کہ بعد میں چودھری شجاعت منتیں ترلے کرنے مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کے در پر چلے گئے لیکن حال یہ ہے کہ کوئی بھی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور مسلم لیگ ق ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرتی آ رہی ہیں اور جس اتحاد میں شامل ہوتی ہیں اسی کے لیے خطرہ ہوتی ہیں اور ان کا ماضی جس تھالی میں کھاتی ہیں اسی میں چھید کے حوالے سے جانا جاتی ہیں۔ ان کی سیاست اصولوں کے بجائے دا ماری اور ’’وصولی‘‘ پر یقین رکھتی ہے۔ یہی پرویز الٰہی تھے جنہوں نے جنرل مشرف کو وردی میں دس سال منتخب کرانے کا جلسہ عام میں اعلان کیا تھا اور مسلم لیگ ن پر زندگی تنگ کی ہوئی تھی۔ اور یہی عمران خان تھے جنہوں نے پرویز الٰہی کو سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا۔ یہی ایم کیو ایم تھی جسے نواز شریف اور عمران خان دہشت گرد جماعت قرار دے چکے تھے اور پیر پگارا تو بقول نواز شریف کے پگارا لیگ کی سیاست خاکی یونیفارم پہنے ہے۔ اس لاٹ میں حالیہ اضافہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ ) کا ہے جس کا قبلہ و کعبہ ہی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ حیرت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈسے نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان بھی ان سب کے دروازوں پر کاسہ لیے کھڑے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ سیاست مں کوئی اصول نہیں ہوتے سب دھندا ہے اور دھندے میں آپ کسی کے کوٹھے پر اور آپ کے کوٹھے پر کوئی بھی جب چاہے آ سکتا ہے۔ یقیناً اسے سیاست تو نہیں البتہ ’’سیاہ کار سیاست‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اور سیاستدان محض اس کا آلہ کار ہوتے ہیں جبکہ عوام سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ جب تک عدم اعتماد کی تحریک کا فیصلہ نہیں ہو جاتا پوری قوم ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہے گی۔ سر عام لین دین اور وعدے وعید ہو رہے ہیں الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے ہمیشہ کی طرح اس ہارس ٹریڈنگ پر ماضی کی طرح محض تماشائی اور خاموش ہیں۔ بے نظیر شہید کے دور میں آپریشن چھانگا مانگا اور سوات سب کے سامنے ہے جہاں ممبران کی خرید و فروخت کے لیے اربوں روے کا لین دین ہوا لیکن ادارے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ آج بھی سب کچھ اصولوں پر نہیں بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے کے تحت ہو رہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا جو بھی فیصلہ ہو یہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی انا کی تسکین ہو گی اور عوام ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جائیں گے۔
میں نے اپنی صحافتی زندگی میں تین عدم اعتماد کی تحاریک دیکھیں اور رپورٹ کیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عمل کے دوران اخلاقیات، تعلق اور وفاداری کا جنازہ نکالا جاتا رہا ہے۔ کل تک کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھنے والے، دکھ سکھ کے ساتھی اور ہر نیکی و بدی، جام و مے میں شریک سب کچھ بالائے طاق رکھ کر آنکھیں بدلنے میں گرگٹ کو بھی مات دے رہے ہیں۔ سب اپنا اپنا سودا دھڑلے سے کر رہے ہیں اور پھر شرمندگی بھی نہیں۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید اور شوکت عزیز کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو چکی ہیں اور اس دوران جو کچھ ہوا تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالی تو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں فخر امام قومی اسمبلی کے وہ سپیکر ہیں جنہوں نے 1985 میں اپنے مخالف اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاالحق کے امیدوار خواجہ صفدر (والد گرامی خواجہ آصف) کو خفیہ رائے شماری میں 111 کے مقابلے میں 119 ووٹوں سے شکست دے کر سب سے بڑا اپ سیٹ کیا تاہم وہ واحد سپیکر ہیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد 72 کے مقابلے میں 152 ووٹوں سے کامیاب ہوئی۔ 26 مئی 1986 میں پیش ہونے والی اس تحریک کے پیچھے بھی اس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صدر ضیاالحق تھے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ بعد ازاں نئے سپیکر کا انتخاب 29 مئی 1986 کو ہوا جس میں حامد ناصر چٹھہ نے 176 ووٹ حاصل کیے اور کامیاب قرار پائے۔
1989 میں وزیر اعظم بینظیر بھٹو کیخلاف نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد 12 ووٹوں کے فرق سے ناکام ہو گئی، اس چیلنج کا خاتمہ ہو گیا جس نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں پاکستان کی پہلی مکمل سویلین حکومت کو ختم کرنے کا خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ 236 رکنی قومی اسمبلی کے قوانین کے تحت صرف عدم اعتماد کے حامیوں کو ووٹ دینا ضروری تھا۔ حکومت کو بے دخل کرنے کے لیے درکار 119 ووٹوں میں سے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کے حق میں 107 ووٹ ملے۔ واضح رہے کہ عدم اعتماد کو ایوان صدر، آرمی چیف اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔
1993 میں مسلم لیگ ن کی اکثریت والی پنجاب اسمبلی میں اس وقت کے درویش صفت وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی اس طرح منظور ہوئی کہ دنیا حیراں ہو گئی۔ کل تک وائیں کا ساتھ دینے والے جانوروں کے ریوڑ کی طرح فلور کراس کر گئے اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ اس کے محرک اسٹیبلشمنٹ کے مہرے اور اس وقت کے سپیکر منظور وٹو تھے۔ اس تحریک کی کامیابی کے لیے بھی وفاداریاں خریدنے کے لیے سرکاری دھن اور نوازشات کی بارش کی گئی۔ اس عدم اعتماد کے تانے بانے بننے والے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان تھے۔
ہماری قوم اور سیاستدان بھی عجیب ہے جب جب حکومتیں گریں انہوں نے مٹھائیاں بانٹیں اور بھنگڑے ڈالے۔ 1990 میں بینظیر کی پہلی حکومت گری، 1993 میں نوازشریف کی پہلی حکومت گری، 1996 میں بینظیر کی دوسری حکومت گری، 1999 میں نوازشریف کی دوسری حکومت گری اور 2017 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو گھر بھیج دیا گیا تو سیاستدانوں اور عوام نے بھنگڑے ڈالے۔
قوم کے نام پہ اس ہجوم اور جمہوریت کے چمپئن سیاستدانوں کو ہر آنے جانے والے کی خوشی میں بھنگڑے ڈالنے کی عادت ہو چکی ہے جن کا نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ کوئی منشور۔ ’’دھمالی قوم، لٹیرے حکمران‘‘۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ہر لیڈر نے یہی کہا ہے کہ ہمارے ساتھ پوری قوم کھڑی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ قوم اگلا بھنگڑا ڈالنے کے لیے بے قرار کھڑی ہے۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔

تبصرے بند ہیں.